دہشت گردی کی جنگ

گزشتہ عشر ے سے وطن عزےز کا جسم زخم زخم مگر روح پُر عزم اپنی منزلوں کی جانب رواں دواں ہے ۔ ہر قدم پر فورسز کے جوان دہشت گردو ں کے ساتھ بر سر پےکار ہو کر اور نہتے شہری پر امن زندگی کی تگ و دو کے دوران نذرانہ ءخون پےش کرتے نظر آتے ہےں ۔ اب تو اس منظر نامے مےں اےک روٹےن سانظر آتا ہے ۔ ”فلاں جگہ دھماکہ ہو گےا ۔ فلاں لےڈر کےطرف سے دہشت گردی کی پر زور مذمت ،دھماکے مےں بےرونی ہاتھ کا ملوث ہو نا خارج از امکان نہےں ، حکومت کسی کو اسطرح کی کاروائی کی اجازت نہےں دے گی ، مجرموں کو کےفر کردار تک پہنچاےا جائےگا ‘ سکےورٹی سخت کر دی گئی ہے ، فلاں حاتم طائی کی طرف سے مرنے والوں کے لےے پانچ پانچ لاکھ اور زخمےوں کے لئے 50 ہزار روپے فی کس ”معاوضہ “ وغےرہ ۔ چند دن کی خاموشی کے بعد پھر ےہی سب کچھ ۔ نہ کو ئی کےفر کردار تک پہنچتا دےکھا گےا اور نہ کسی اندرونی ےا بےرونی ملوث طاقت کو نامزد کےا گےا ۔ مےرے نزدےک دہشت گردی اس نئی صدی کی جنگی ڈاکٹرائےن کا اہم جزو ہے ۔ اب جنگوں مےں نہ تو دشمن زےادہ دےرتک آمنے سامنے رہےں گے اور نہ ہی تاریخ جنگ کی وجوہات واضح طور پر لکھ سکے گی ۔ کسی کی بھی" ©"Will to Fight کو توڑنے کےلئے لمبی جنگوں کی جگہ دہشت گردی کا حربہ استعمال کےا جائےگا۔ ےہ تجربہ افغانستان اور عراق مےں کامےاب رہا اور افغانستان کے ہمسائے اور امرےکہ کے حواری ہونے کے ناطے ہمار ی جڑوں مےں بھی اتر گےا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے طبقاتی تقسےم کے شکار معاشرے مےں ےہ نظرےہ خوب پھولا پھلا اور آج وطن دشمنی سے لےکر ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان و بھتہ خوری سے لے کر موبائل چھےننے تک اس کی اَن گنت برانچےں بے جھجک روبہ عمل ہےں ۔ سوسائٹی میں دہشت گردی کے اڈوں اور مجرمان کا علم اکثر ہو تا ہے مگر عدم تحفظ اور طاقتوروں پرعدم اعتماد کی بدولت لب کھولنے کی جرا¿ت نہےں ہوتی علم تو طاقتور طبقے کو بھی ہو تا ہے مگر و ہ اپنی مصلحتوں کی بدولت نہ جر اتمندانہ فےصلے کرتے ہےں نہ ہی لب کشائی کی جسارت کرتے ہےں ۔ گوےا اجتماعی بصےرت و فکر، اجتماعی عمل اور آپس مےں عدم اعتماد کا ختم کےا جانا وہ عوامل ہےںجو رےاستی کوششو ں کی کامےابی کی ضمانت بن سکتے ہےں ۔ تھوڑے الفاظ مےں پاکستان کے تمام مسائل کاحل اےک مربوط سوسائٹی کے قےام مےں ہے ۔فی الحال ہم دہشت گردی روکنے کیلئے مضمون کا تےن گروپس مےں جائزہ لےتے ہےں ۔ وفاقی ادارے ، صوبائی ادارے اور سول سوسائٹی ۔ 1۔ وفاقی حکومت اور ادارے۔ اگرچہ سکےورٹی صوبائی ذمہ دارےوں مےںآتی ہے مگر صوبائی حکومت کا دائرہ اپنے علاقے مےں اٹھنے والے جرائم اور مجرمان کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عوام مےں تحفظ کا ماحول پےدا کرنے تک محدود ہو تا ہے ۔ باہر سے اٹھنے والے جرائم اور تےار ہو کر آنیوالے دہشت گرد جب اپنی مرضی کے وقت اور مرضی کی جگہ پرسٹرائےک کرنے آتے ہےں تو صوبائی فورسز صرف Reactive ہو سکتی ہےں جو اسطرح کی جنگ مےں کمزور تر ےن حکمت عملی کہلاتی ہے ۔ حالات کا تقاضا ہے کہ وفاقی ادارے اپنے آپ کو صوبوں مےں اےک موثر سسٹم کے ذرےعے جنگ کا حصہ بنائےں۔جب اس مےں کو ئی شک نہےں کہ دہشت گردی امپورٹڈ آئےٹم ہے‘ اسکے تدارک کی زےادہ ذمہ داری وفاق پر آتی ہے ۔ صرف چار نقاط پر توجہ چاہتا ہوں ۔ ۱۔ بےن الاقوامی تعلقات پر سےاسی قائدےن کو مکمل برےفےنگ دی جائے جن مےں دوست دشمن کسی کی بھی ہمارے معاملات مےں مداخلت ےا کوئی با لواسطہ اثر انداز ہونے کا تاثر ملتا ہو تو کھول کر بتاےا جائے۔ آجکل ہمارے گردو پےش میں اےک خاص قسم کی عالمی ہلچل نظر آرہی ہے جو بظاہر اس خطے مےں امن اور ترقی کےلئے ہے۔ در حقےقت سبھی اپنے اپنے مفاد کے پےچھے اس گےم چےنج کا حصہ بنے ہوئے ہےں جبکہ بڑی طاقتوں نے ےہاں سٹرےٹجک سےٹ اےڈجسٹمنٹ کرلی ہے۔ ان حساس حالات مےں ہمےں پوری قوم کی شمولےت سے اےسی دےر پا قومی پالےسےاں ترتےب دےنی ہےں جو وقتی رےلےف سے بے نےاز، کمزوری میں دوسروں پر زےادہ انحصار سے اجتناب، اور قومی جذبات سے ہم آہنگی پر مبنی ہوں ۔ ب ۔ آنے والی آل پارٹےز کانفرس کو اےک جرگہ سمجھا جائے جس مےں کھل کر بات سنی اور سنائی جائے ۔ اعلامےہ مےں درست کو درست اور غلط کو غلط ثابت کر کے جرگے کی طرف سے ان لوگوں پر پابندےاں لگائی جائےںجو کسی طرح بھی دہشت گردی اور جرائم کی پشت پنا ہی کرتے ہےں ےا خاموش اعا نت مجرمانہ کے مر تکب ہو تے ہےں ۔ اب مصلحت کوشی قومی اجتماعی خودکشی سے فقط چند قدم پےچھے رہ گئی ہے ۔ ج ۔ تمام ایجنسیوں پر مشتمل فاٹا کو صوبے کا درجہ دینا ، افغان بارڈر سیل کرنا اورافغانستان کے معاملات میں بے جا مداخلت سے باز رہنے پر ٹھوس پالیسی تشکیل دی جائے د۔تمام متعلقہ ادارے اور اےجنسےوں کی وفاقی اور صوبائی سطح پر کوارڈینیشن کو کسی مربوط نظام کے تحت لا کر فول پروف بنایا جائے۔ ہو نا تو ےہ چاہئےے کہ فلاں جگہ پر اتنے دہشت گرد فلاں ٹارگٹ کےطرف بڑھتے ہو ئے دھر لئے گئے ہیں۔ ےا اگر وہ آغاز ِ سفر کر چکے ہےں تو انکے پورے راستے پر اداروں ، اےجنسےوں ، فورسز اور سول سوسائٹی کا مربوط کرا س فائر ان کا منتظر ہو ۔ اور اگر وہ ٹا رگٹ پر حملہ کرنے مےں کامےاب ہو جاتے ہےں تو گوےا اس وقت وہ وہاں پر اپنی موجودگی کا اعلان کر چکے ہو تے ہےں پھر QRF اور مجوزہ نےٹ ورک سے انہےں نکلنے کا کو ئی راستہ نہےں ملنا چاہئےے ۔ ر۔ کسی پالےسی مےں بے جا Appeasement کا عنصر نہےں آنا چاہئےے ۔ جن لوگوں نے اپنی منزل ”اقتدارےا پہاڑ“ بنا رکھی ہے۔ انہےں سےاسی طور پر دونوں کے درمےان اپنی فلاحی بستی بنانے کی ترغےب دےنی چاہئےے ۔  2۔ صوبائی حکومت اور ادارے ۔ میرے مشاہدے کیمطابق صوبائی سطح پر دہشت گرد ی روکنے کیلئے جس وسعت نظری، جدّت پسندی اور سوسائٹی سے طاقت لینے کی ضرورت ہے ہم اس سے کافی پیچھے ہےں ۔ مثلاً ا۔ تحفظ عامہ ایک ماحول کا نام ہے ۔ جس میں سوسائٹی کے سارے لوگوں کو یکساں تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ ہم نے روائتاً پوری سوسائٹی کو تحفظ پہنچانے والی فورسز کو بڑوں کے گرد جمع کر کے اپنی ترجیحات میں اوّل تحفظ مجرمان ©©©©©‘ دوم تحفظ خواص ‘ اور سوم بچے کھچے پر تحفظ عوام کو عملی شکل پہنا رکھی ہے۔یہ رویہ بدلنا ہوگا ۔ب۔ کسی بھی ریاستی تنصیب یا پرائیویٹ سنٹرز بشمول سکولوں کے کوئی سیکورٹی یا ایمرجنسی پلان نہ ہے جسے اصولاً دوسری سروسز کی طرح بلڈنگ پلان کا حصہ ہونا چاہیے۔ اس کی مانیٹرنگ پولیس کر رہی ہو تو یہ ایک بہت مضبوط Backing ثابت ہو سکتی ہے۔ سیکورٹی کے اقدامات کسی بلڈنگ کے دروازے پر لگے بےریئر ‘ چاک وچوبندگارڈ اور یہاں لگے ہوئے کےمرے وغیرہ کو کافی سمجھا جاتا ہے ۔ج۔ آجکل کی سیکورٹی کےلئے بروقت انٹیلیجنس اور تیار ردِ عمل کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے وہ محکمے جن کے لوگ ہر گلی میں سروسز وغےرہ پہنچاتے نظر آتے ہیں ان کو بھی مجوزہ نیٹ ورک میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ اسکے علاوہ محکمہ شہری ِدفاع اور پرائیویٹ سیکورٹی کمپنیوں کے ہزاروں گارڈوں کو ایک سسٹم کے ذریعے فعال کر دیا جائے ۔د۔ جدید آلات کا صحیح استعمال ۱۰ فیصد سے بھی کم ہو رہا ہے۔ کسی کیمرے نے آج تک واردات کے آغاز پر کچھ نہیں بتایا نہ ہی انکے بتانے پر کو ئی ری اےکشن فورس تےار ملتی ہے۔ان آلات کوردِ عمل کے پلان کا حصّہ بنایا جائے ۔ر۔ صوبائی حکومتےں وفاقی اےجنسےوں کو پیشگی اطلاع کیلئے کرےدنے کی بجائے انکے روٹےن لےٹر ز کا نتظار کر تی رہتی ہےں اور عوام انکے Reactive اقدامات کا، جن مےں بھی کو ئی خاص راحت نہےں ہو تی ۔ صوبائی ایجنسیوں کو دوسرے صوبوں میں بھی فعال ہونا چاہئے۔3۔ سول سوسائٹی ۔ ہماری سو سائٹی مےں تحفظ کو دو انتہاﺅں پردیکھنے کا روّےہ ہے۔ ےا تو سب کچھ پولےس پر چھوڑکر بےٹھ جانا ےا سب کچھ اپنے ہاتھ مےں لے لےنا ۔ کےا ہم درمےانی راستہ نہےں اپنا سکتے؟ ےعنی اپنی گلی مےںخود کو آرگنائز کر کے نہ صرف پولےس کی مدد کرےں بلکہ اپنی گلےوں کو مجرموں کےلئے جنت نہ بننے دےں ۔ جب تک ہماری فورسز دفاعی روےے سے نکل کر دہشت گردوں سے Initiative چھےننے کی اہلےت حاصل نہےں کر لےتےں دہشت گردی پر قابو نہےں پاےاجا سکتا اور ےہ اہلےت اےک مربوط سوسائٹی کی با وقار عملی شمولےت کے بغےر حاصل نہےں کی جا سکتی ۔

زیڈ ۔ آئی۔ فرخ

ای پیپر دی نیشن

مولانا صوفی فضل احمد

آپ 1906ء میں نور پور تھل، خوشاب میں میاں ملوک علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد ایک علم دوست اور عارف باللہ بزرگ تھے۔ آپ کی ...