ایبٹ آباد کمشن رپورٹ حاضر سروس افسر نے 15 ہزار ڈالر لیکر لیک کی : ذرائع امریکی سچ کہتے ہیں کہ ”پاکستانی چند ڈالروں کی خاطر ماں بھی بیچ دیتے ہیں“ وہ ایسے ہی غدار ہوتے ہیں۔ پروین شاکر نے کہا تھا ....
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے ۔۔۔ ایسے سُخن فروش کو مر جانا چاہئے
اب حکومت نے چور کا کھوج تو لگا لیا ہے کہ غیر ملکی میڈیا کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کی گئی کاپی میں کلر واضح ہے اور اس کلر کی کاپی سابق وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک کے پاس تھی۔ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف نے فاروق ایچ نائیک کی سربراہی میں ہی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس میں صرف انہی کے پاس اس کلر کی کاپی تھی۔ ابھی تو صرف ایک رپورٹ سامنے آئی ہے اگر حکومت تحقیق کرے تو بہت کچھ سامنے آ سکتا ہے کیونکہ موصوف بحیثیت چیئرمین سینٹ قائمقام صدر بھی بنتے رہے ہیں۔ اگر چند ہزار ڈالر کی خاطر وہ رپورٹ بیچ سکتے ہیں تو پھر ملکی راز غیروں کے سامنے اُگلنا ان کیلئے بالکل مشکل نہیں ہو گا۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ بھی رپورٹ افشا ہونے کا سراغ لگانے کا واویلا کر رہے ہیں۔ جناب یہاں فال نکالنے کی ضرورت ہے نہ ہی کسی کھوجی کو کھوج لگانے کی بلکہ کُھرا سیدھا جس کے گھر جا رہا ہے‘ اسکی گردن ناپیں۔ ٭۔٭۔٭۔٭۔٭سندھ کابینہ میں 9 وزراءکا اضافہ، اویس مظفر ٹپی کو 5 محکمے دے دئیے گئے !جناب 5 محکمے دینے کی بجائے آپ انہیں وزیر اعلیٰ سندھ بنا کر کابینہ ہی ختم کر دیں تاکہ ہر طرف ٹپی ہی ”ٹپتا“ نظر آئے۔ حقیقت میں قائم علی شاہ تو صرف ”ڈمی“ وزیر اعلیٰ ہیں اختیارات کا منبع تو پہلے بھی ٹپی سرکار تھے۔ ایک بندہ 5 محکمے لیکر کہاں کہاں کام کرے گا۔ سابق دورِ حکومت میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے پاس کچھ وزارتیں تھیں تو پی پی کے راجہ ریاض اینڈ کمپنی نے اس قدر شور مچایا تھا کہ شاید اتنا شور چور بھی چوری کرنے کے بعد عوام میں شامل ہو کر نہ مچاتا ہو، اب پیپلز پارٹی والوں کو سانپ سونگھ گیا ہے۔ شرمیلا فاروقی بیچاری دوڑتی رہیں اور اسمبلی کے فورم پر تو انہوں نے مردانہ وار دھواں دار تقریر بھی کر چھوڑی تھی کہ شاید اس کے عوض کوئی وزارت مل جائے لیکن وہ اب بھی ہاتھ ملتی رہ گئیں اور ٹپی بھائی بازی لے گئے۔ ٹپی کا دیپ پہلے بھی محلات میں جلتا تھا اب بھی وہیں پر جلے گا۔ چند لوگ پہلے بھی مستفید ہوتے تھے اور اب بھی وہ ہی ”بیری“ سے ”بیر“ کھائیں گے۔ شرمیلا فاروقی کو اب ایوان صدر میں صرف بلینک خط ارسال کر دینا چاہئے شاید ان پر کچھ اثر ہو جائے۔ ظہور نظر نے کہا تھا ....
وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر ۔۔۔ میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں
اظہار مت کریں صرف چٹھی ہی دل کے پھپھولے بیان کر دے گی۔ اویس مظفر ٹپی پچھلے پانچ سال تو چھپے رستم بنے رہے اور پسِ دیوار بیٹھ کر معاملات چلاتے رہے لیکن شاید انہوں نے سوچا جب تک ”جنج“ نہ چڑھے تو پڑوسیوں کو بھی پتہ نہیں چلتا کہ شادی ہوئی ہے یا نہیں۔ اس لئے وہ میدانِ عمل میں نکل آئے ہیں دیکھیں ”ٹین پرسنٹ“ کی بجائے ”ہزار پرسنٹ“ کا ہندسہ کراس کرتے ہیں یا پھر بڑے بھائی کے احترام میں 9 پرسنٹ پر ہی بریک لگا لیتے ہیں۔ ویسے 5 محکموں کے قلمدان سنبھال کر لگتا ہے وہ کوئی نیا چن ہی چڑھانے کی کوشش کریں گے۔ ٭۔٭۔٭۔٭۔٭پاکستان میں ڈرون حملوں کو سختی سے روکنے کا فقدان ہے۔ آرمٹیج پاکستان میں صلاحیت کی کمی نہیں لیکن لگتا ہے بعد کے ردعمل سے وہ گھبرا رہے ہیں ورنہ تو ہمارے پاس ڈرون گرانے کی ٹیکنالوجی فضائیہ کہتی ہے کہ لیکن شاید ایسا کرنے سے پَر جلتے ہیں یا پھر مزید آگ بھڑکنے سے ڈرتے ہیں۔ ویسے ایران نے ڈرون گرایا تھا اس کا تو کسی نے کچھ بھی نہیں بگاڑا، وہ ہشاش بشاس خوش و خرم ہے۔ ایران کے گھٹنوں میں پانی ہے وہ کھڑا ہو سکتا ہے لیکن ہم تو جب آئی ایم اے ایف کے پاس کشکول لیکر جائیں گے تو پھر ہمارے پیٹ بھریں گے۔ نواز شریف حکومت نے انتخابی نعرہ تو لگایا تھا کہ ڈرون گرائیں گے لیکن دور کے ڈھول ہی سہانے ہوتے ہیں۔ ہم بولنے میں تو شیر ہیں لیکن حقیقت میں شاید شیر کی کھال سے بھی ڈر جائیں۔ ٭۔٭۔٭۔٭۔٭2 بچوں کی ماں سنگسار، موبائل فون نے زندگی چھین لی! موبائل رکھنا وبال جان بن گیا۔ ڈیرہ غازی خان کی بستی قائم والا کی پنچائیت نے خاتون کو پتھر مار کر ہلاک کروا دیا۔ ایسے جاہل اور اُجڈ لوگ نہ جانے پنچائیتوں میں کیسے بیٹھا دئیے جاتے ہیں۔ موبائل رکھنا کون سا جرم ہے آج کے دور میں موبائل تو انسانی ضرورت ہے لیکن ضرورت نے جان لے لی۔ ”سنگسار“ کرنا کونسی انسانیت ہے، یہ وحشی درندے پتھر مارنے کے باوجود آزاد پھر رہے ہیں۔ آئی جی پنجاب متعلقہ افسران کے کان کھینچیں اور ایسے وحشیوں کو لگام دیکر کیفر کردار تک پہنچائیں۔ اگر قانون حرکت میں نہ آیا تو پھر پورے علاقے میں بگاڑ پیدا ہو جائے گا۔ خاتون کے چچا اور رشتہ داروں نے پتھر اور اینٹیں مار مار کر سرعام خاتون کو ہلاک کیا لیکن انہیں روکنے کیلئے کوئی بھی آگے نہ بڑھا۔ یہ کیسی بے حسی ہے؟ حکومت اس کیس کو ٹیسٹ کیس بنائے اور پتھر مار ملزمان کو پتھر کے زمانے میں واپس لوٹا دیا جائے۔ سزا قانون کے مطابق دی جائے‘ پنچائت کے حکم کے مطابق نہیں۔