دہشت گردوں کی سرکوبی ہی ملکی سلامتی اور معیشت کی بحالی کا تقاضا ہے ...
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ دہشت گردوں کی پاک سرزمین میں کوئی جگہ نہیں اور حکومت دہشت گردی کے ناسور سے نمٹنے کیلئے ہر قدم اٹھائے گی۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں فاٹا کے ارکان پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردوں کی دھمکیوں سے مرعوب ہونگے‘ نہ کسی سے بلیک میل ہونگے۔ دہشت گرد جان لیں ہم پاکستان کی بقاءکیلئے انتہائی قدم اٹھانے سے بھی گریز نہیں کرینگے کیونکہ ہمارا منشور صرف اور صرف امن ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لیں گے‘ اسکے خاتمہ کیلئے اجتماعی کوششیں ناگزیر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ دہشت گردی سے نمٹے بغیر معیشت بہتر ہو سکتی ہے نہ قوم کی حالت بدل سکتی ہے۔ دہشت گردی کیخلاف روڈمیپ کو حتمی شکل دینے کیلئے فاٹا ارکان سے مشاورت جاری ہے‘ بات چیت کا دروازہ ہر وقت کھلا رہنا چاہیے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کا افغان صدر کرزئی سے مسلسل رابطہ ہے‘ وہ فاٹا کے عوام کو امن کا تحفہ دینا چاہتے ہیں۔ میاں نوازشریف نے کہا کہ حکومت کا چیلنج ہے کہ وہ معیشت کی بحالی ممکن بنائے گی جبکہ معیشت کی بحالی کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے۔ ہم بات چیت سے مسئلہ حل کرنا چاہتے ہیں تو دہشت گرد اسے ہماری کمزوری نہ سمجھیں۔ پاکستان دہشت گردوں کے ہاتھوں شدید متاثر ہوا ہے‘ ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہیں بیٹھ سکتے۔ موجودہ حکومت کیلئے دہشت گردی کا خاتمہ ہی سب سے بڑا چیلنج ہے جس کے بغیرشہریوں کا امن و سکون واپس آسکتا ہے‘ نہ میاں نوازشریف کا معاشی دھماکے کا خواب پورا ہو سکتا ہے جبکہ دہشت گرد جمہوری نظام کو سبوتاژ کرنے اور ملک کا امن تباہ کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنے کے ایجنڈے پر گامزن ہیں۔ میاں نوازشریف نے اس تناظر میں دہشت گردی کے ہر صورت خاتمے کے عزم کا اظہار کرکے ملک اور امن دشمن دہشت گردوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ وہ انکی کسی قسم کی دھمکیوں اور دہشت گردی کی وارداتوں سے قطعاً مرعوب نہیں ہونگے۔ اس خطہ میں امریکہ کی شروع کی گئی افغان جنگ کے نتیجہ میں 2001ءسے اب تک ہماری ہر حکومت کو دہشت گردی کے چیلنج کا سامنا رہا ہے مگر بدقسمتی سے کوئی بھی حکومت دہشت گردوں سے اپنی رٹ تسلیم نہیں کرا سکی اور دہشت گردی کے اس تسلسل میں ہم اب تک اپنی سکیورٹی فورسز کے دس ہزار کے قریب افسران اور اہلکاروں سمیت 50 ہزار کے لگ بھگ انسانی جانیں ضائع کر چکے ہیں جبکہ امن و امان کی بدحالی نے ہماری معیشت کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا ہے جسے اب تک 70 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان پہنچ چکا ہے جبکہ بیرون ملک کے ہی نہیں‘ ہمارے اپنے سرمایہ کار بھی اب یہاں سرمایہ کاری کا رسک لینے کو تیار نہیں اور وہ اپنے ملک کو چھوڑ کر اپنا کاروبار بنگلہ دیش‘ عرب ممالک اور دیگر ممالک میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس صورتحال میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑے بغیر قومی معیشت کی ترقی اور ملکی سلامتی کی ضمانت کیسے فراہم کی جا سکتی ہے کیونکہ دہشت گردی کا ناسور تو پھیلتا ہی جا رہا ہے اور دیگر صوبوں کے علاوہ اب پنجاب بھی دہشت گردی سے محفوظ نہیں رہا۔ گزشتہ ہفتے دہشت گردوں نے وزیراعظم نوازشریف کے دورہ¿ چین کے موقع پر پرانی انارکلی لاہور کی فوڈسٹریٹ میں انکے اپنے حلقہ انتخاب میں گھناﺅنی دہشت گردی کرکے انکی حکمرانی کو چیلنج کیا جبکہ کوئٹہ فرقہ ورانہ دہشت گردی کا گڑھ بنایا جا چکا ہے۔ خیبر پی کے کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے تسلسل نے خودکش حملوں اور دہشت گردی کی دوسری وارداتوں کا تسلسل ٹوٹنے نہیں دیا اور اب کراچی میں خودکش حملوں کے ذریعے بھی ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے جو دہشت گردوں کا خوف و ہراس کی فضا پیدا کرنے کا نیا انداز ہے۔ گزشتہ روز کراچی کے مصروف علاقے گرومندر میں ایک خودکش دھماکے میں صدر آصف علی زرداری کے چیف سیکورٹی افسر بلال شیخ سمیت چار افراد جاں بحق ہوئے جبکہ تحقیقات کرنیوالی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ بلال شیخ ہی اس خودکش حملے کا ٹارگٹ تھے۔ جب دہشت گردوں کے حوصلے اتنے بلند ہوں کہ وہ صدر مملکت کے چیف سکیورٹی افسر کو ٹارگٹ کرکے مارنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے میں بھی کوئی دقت محسوس نہ کریں‘ تو عام شہریوں کو دہشت گردوں کے جنونی عزائم سے کیسے محفوظ کیا جا سکتا ہے۔ چنانچہ گزشتہ روز کوہاٹ میں بھی دہشت گرد جامعہ مسجد میں نماز ظہر کی ادائیگی کے بعد باہر آنیوالے نمازیوں کو موٹرسائیکل بم دھماکے کے ذریعے اپنی دہشت گردی کی بھینٹ چڑھانے میں کامیاب رہے جس میں تین نمازی شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔ اس صورتحال میں دہشت گردی کے محرکات اور ہماری سرزمین پر دہشت گردی کا جال پھیلانے والے سازشی عناصر کا کھوج لگا کر اور انکی سرکوبی کئے بغیر دہشت گردی کا مکمل خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ اس سلسلہ میں وفاقی حکومت کی جانب سے 12 جولائی کو قومی سلامتی کانفرنس طلب کی گئی ہے جس میں حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت تمام جماعتوں کے قائدین کے علاوہ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی اور دوسری عسکری قیادتوں کو بھی مدعو کیا گیا ہے جبکہ گزشتہ روز وزیراعظم میاں نوازشریف نے آئی ایس آئی ہیڈکوارٹر اسلام آباد کا دورہ کرکے وہاں آئی ایس آئی چیف سے دہشت گردی کے پھیلے نیٹ ورک اور اسکے سدباب کے ممکنہ اقدامات پر بریفنگ بھی لی ہے۔ میاں نوازشریف خود بھی دہشت گردی کے خاتمہ کے جس عزم کا اظہار کر رہے ہیں‘ توقع کی جانی چاہیے کہ اس عزم کی بنیاد پر قومی سلامتی کانفرنس میں دہشت گردوں کی سرکوبی کیلئے کوئی لائحہ عمل قومی اتفاق رائے سے طے ہو جائیگا۔ بصورت دیگر ملک اور عوام مستقل طور پر دہشت گردوں کے رحم و کرم پر رہیں گے اور حکومتی اتھارٹی ایک مذاق بن کر رہ جائیگی۔ ملک میں امن کی بحالی کی خاطر عسکریت پسند تنظیموں کے ساتھ امن مذاکرات کی یہ شرط واضح کی جائے کہ ملک کی سلامتی‘ خودمختاری اور سسٹم کو چیلنج کرنیوالے شدت پسند عناصر حکومتی اتھارٹی اور ملکی خودمختاری کو تسلیم کرکے سرنڈر کرنے پر آمادہ ہوں تو مذاکرات کئے جا سکتے ہیں‘ ورنہ نہیں۔ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے حالیہ دورہ¿ چین کے موقع پر جہاں چینی کمپنیوں کے ساتھ توانائی کے متعدد منصوبوں کی تکمیل کے معاہدے کئے ہیں‘ وہیں چینی سرمایہ کاروں کو پاکستان میں امن و امان کا مثالی ماحول فراہم کرنے کابھی یقین دلایا ہے اس لئے اب محض زبانی جمع خرچ سے کام نہیں لیا جانا چاہیے‘ دہشت گردی کے ناسور نے پہلے ہی عالمی برادری میں ہمارا وقار کم کیا ہے اور دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے کوئی ہمارے کردار پر اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ اگر اب چینی سرمایہ کاروں کے پاکستان آنے کے بعد انہیں دوبارہ دیامیر جیسے کسی سانحہ کا سامنا کرنا پڑا تو ہمارے اعتبار کی رہی سہی کسر بھی نکل جائیگی اس لئے یہی وقت ہے کہ دہشت گردوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے چاہے وہ ملک کے جس بھی حصے میں اور جس بھی بھیس میں موجود ہیں۔ وزیراعظم نے اپنے دورہ¿ چین سے قبل کوئٹہ جا کر وہاں سکیورٹی ایجنسیوں کو تخریب کار عناصر کی سرکوبی کیلئے سخت اقدامات بروئے کار لانے کی ہدایت کی ہے‘ بہتر ہو گا کہ وہ بالخصوص کوئٹہ اور زیارت میں فرقہ ورانہ دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے تمام مکاتب فکر کے علماءکرام کی کانفرنس بھی طلب کریں اور اتحاد بین المسلمین کی فضا ہموار کریں‘ اسکے باوجود سرکش عناصر فرقہ واریت کے نام پر بے گناہ انسانوں کا خون بہانے سے جو باز نہ آئیں اور ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہے تو پھر حکومت کو دہشت گردوں سے اپنی اتھارٹی تسلیم کرانے کیلئے انتہائی اقدامات سے بھی گریز نہیں کرنا چاہیے۔ جو عناصر ملک اور انسانیت دشمن ہیں اور دہشت گردی کے ذریعے ملک میں خوف و ہراس کی فضا پیدا کرکے اپنے مذموم عزائم کی تکمیل چاہتے ہیں‘ وہ کسی ہمدردی کے مستحق ہیں‘ نہ انکے ساتھ کوئی رعایت روا رکھی جانی چاہیے۔ انکی سرکوبی ہی ملک کی سلامتی اور معیشت کی بحالی کا تقاضا ہے۔