اخوان المسلمین اورفوجی بغاوت

Jul 12, 2013

رابعہ رحمن

مصر میں محمدمرسی کی قیادت میں قائم اخوان المسلمین کی منتخب جمہوری حکومت کی فوجی بغاوت کے نتیجے میں برطرفی کے بعد آگ وخون کا کھیل جاری ہے ۔ کئی دہائیوں پر مشتمل شخصی اور آمرانہ دور حکومت کے بعد2011ءکے اواخر میں ہونیوالے عام صدارتی انتخابات کے بعد یہ امید ہوچلی تھی کہ اسلامی دنیا کے اس اہم ملک میں عوامی حکمرانی کے ذریعے ترقی وخوشحالی کا ایک نیا دور شروع ہوگا۔ اخوان المسلمین پر ماضی میں انتہا پسندی اور دہشت گردی میں ملوث ہونے جیسے سنگین الزامات لگائے جاتے رہے ہیں جس کی وجہ سے اس جماعت پر مختلف ادوار میں پابندیاں بھی لگائی گئیں اور اسکے کئی اہم رہنماﺅں کو پابندسلاسل کیاگیا۔ان تمام مصائب ومشکلات کے باوجود عوام الناس کی بڑی اکثریت نے اخوان المسلمین کی حمایت جاری رکھی، اپنے اوپر لگائے گئے سنگین اور بے جا الزامات کی نفی کرنے کےلئے اس جماعت نے قومی دھارے میں شامل ہونے کےلئے عام انتخابات میںبھرپور حصہ لیا۔ مصر کے عوام کی غالب اکثریت نے اخوان المسلمین اور دائیں بازو کی دوسری مذہبی جماعتوں کو بھرپور کامیابی سے ہمکنار کیا۔ اس عوامی حمایت کے نتیجے میں اخوان المسلمین کے نامزد صدارتی امیدوار محمدمرسی نے کامیابی حاصل کی۔ باوجود اسکے کہ انکے مخالف امیدوار کو امریکہ اور مغربی قوتوں کی بھرپور حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی۔ امریکہ کے زیراثرمصر کی اپنی ہی مسلح افواج نے محمدمرسی کی کامیابی کو دل سے قبول نہیں کیا۔ اپنے ایک سالہ دور حکومت میں محمدمرسی نے نہ صرف یہ کہ اپنی عوام کی فلاح وبہبود کےلئے کئی اقدامات اٹھائے بلکہ مصر کی قومی غیرت اور تشخص کے عین مطابق بھی اہم فیصلے کئے جن میں قابل ذکر، اسرائیل کو حاصل راہداری کی بعض سہولیات ختم کرنا شامل ہے جوکہ یقیناً امریکہ اور بعض مغربی طاقتوں کوکسی صورت بھی قابل قبول نہیں۔ اسی وجہ سے گزشتہ ایک سال کے دوران ان تمام قوتوں نے محمدمرسی کی حکومت کو غیرمستحکم کرنے میں کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انکے مخالفین کو ہرطرح سے مدد کے ذریعے انتشار پر اکسایا۔ محمدمرسی اور اخوان المسلمین نے حتی المقدور کوشش کی کہ صورت حال کو خراب ہونے سے بچایا جائے مگر ایک باقاعدہ سازش کے ذریعے حالات اتنے خراب کئے گئے کہ فوجی بغاوت کا جواز پیدا کیا جاسکے اور بالآخر جولائی میں فوج نے بغاوت کرتے ہوئے حکومت کو برطرف کردیا۔ سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ ایک سالہ دور حکومت میں محمدمرسی نے آخر کون سا ایسا جرم کیا جو مصری فوج اور اسکے پس پردہ حمایتیوں سے برداشت نہ ہوسکا۔
ستم ظریفی تو دیکھئے کہ پاکستان کے بشمول کسی بھی اسلامی ملک نے اس بلاجواز اور غیرجمہوری وغیرآئینی اقدام کی مذمت نہیں کی،پچھلے ایک ہفتے کے دوران اپنی حکومت کےخلاف غیرمنصفانہ اور غیرجمہوری اقدام پر احتجاج کا آئینی اورجمہوری حق استعمال کرنیوالے اخوان المسلمین کے پرامن حامیوں کےخلاف بیہمانہ مظالم کئے گئے جس کے نتیجے میں 100 سے زائد بے گناہ افراد اپنی جان سے ہاتھ دھوبیٹھے۔ آج کی اس مہذب دنیا میں جمہوریت اور شخصی آزادی کے نام نہاد علمبردار اس بربریت پر خاموش ہیں۔دراصل اسی طرح کے مظالم ہی دنیا میں شدت اور عسکریت پسندی کا جواز فراہم کرتے ہیں۔ جب اخوان المسلمین جیسی مذہبی جماعت جمہوری جدوجہد پر عمل کرتے ہوئے انتخابات کے ذریعے قومی دھارے میں شامل ہوکر عوام کی خدمت کرنا چاہے تو بجائے اسکے کہ اسکی حوصلہ افزائی کی جائے اسے ظلم وبربریت کا نشانہ بنایاجائے تو پھر کون جمہوری اور آئینی جدوجہد پر یقین کریگا۔
اس طرح کے وحشیانہ اقدامات لوگوں کو بندوق اٹھانے اور طاقت کے ذریعے بات منوانے پر اکساتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ آج مصر میں کچھ حلقے پھر سے برسرعام ایمن الظواہری کے فلسفے کی حمایت کرتے نظرآتے ہیں۔ اسلامی دنیا کو بالعموم اور مصر کی فوج کو بالخصوص اپنے طرز عمل پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ مصر کو مزید تباہی اور بربادی سے بچایاجاسکے۔
اسلامی امہ کی سردمہری یقیناً کسی المیے سے کم نہیں اور آج دنیا بھر میں مسلمانوں کی زبوں حالی کی عکاس ہے۔ ہم آج اپنے مصربھائیوں کےلئے محبت وہمدردی کے دو بول بولنے سے بھی قاصر ہیں۔ اگر امریکہ اورمغربی دنیا اپنے مضموم مقاصد کی تکمیل کےلئے مختلف ممالک میں اس طرح کے انسانیت اور جمہوریت منافی پالیسیوں پر عمل پیرا رہے تو دنیا میں کبھی بھی امن قائم نہیں ہوسکتا جس کا سب سے زیادہ نقصان خود امریکہ کو ہوگا۔ افغانستان، پاکستان اور مشرق وسطیٰ کے حالات اسکی منہ بولتی تصویر ہیں۔ پاکستان کی نئی جمہوری حکومت کو بھی چاہیے کہ اس بارے میں واضح موقف اپنائے اور مصر میں ہونیوالے ظلم وناانصافی کی پرزور مذمت کرے کیونکہ امریکہ کا ہدف صرف مصر ہی نہیں بلکہ اس سے آگے اور بھی اسکے اہداف ہیں۔
 ماضی بعید پر نظرڈالی جائے تو ساٹھ سال سے زائد کا عرصہ ہوچلا کہ مشرق وسطیٰ میں ظلم وبربیت کا کھیل کھیلنے میں اسرائیل مصروف ہے اور اس عدم استحکام کی صورتحال کو امریکہ اور برطانیہ کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ اسی طرح سے عراق،تیونس، لیبیا، شام، یمن اور صومالیہ ان تمام اسلامی ممالک میں ظلم اور بربریت اور قتل وغارت کا بازار گرم کرنے کے بعد اب امریکہ نے مصر میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا کردی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا یہ خونی سمندر نجانے کتنے اسلامی ممالک کو نگلتا جائیگا۔ اگر آج بھی ملت اسلامیہ نے سرجوڑ کرمضبوط حکمت عملی نہ اپنائی تو شاید ان صیہونی طاقتوں کے مظالم اور انسانیت سوزی مسلم امہ کو اس سرزمین میں ختم کردے۔ یہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے! کہنے کو تو دشمنان اسلام جمہوریت کے علمبردار ہیںمگر حقیقت جمہوریت کے قاتل بھی یہی ہیں۔

مزیدخبریں