وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا پرویز خٹک آج کل میڈیا پر چھائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے بے ساختہ کہا کہ میں شہباز شریف کے نقش قدم پر چلوں گا۔ یہ تو ایسی بات ہے کہ انہوں نے شہباز شریف کو اپنا آئیڈیل مان لیا ہے۔ آئیڈیل لیڈر سے مختلف اور بڑا ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ شہباز شریف پہلے سے انہیں پسند ہیں۔ بیچارے جاوید ہاشمی نے بھی تو نواز شریف کے لئے کہا تھا۔ عمران خان خفا ہو گئے۔ تحریک انصاف کے نوجوانوں نے ان کے خلاف تحریک چلا دی۔ یہ کام وہ کچھ کالم نگاروں کے خلاف کر چکے ہیں۔ ن لیگ کے ایک معروف کالم نگار کی بدزبانی اس سے بھی آگے نکل گئی۔ وہ نواز شریف کی خوشنودی کے لئے ہر وقت آمادہ جنگ رہتے ہیں۔ وہ خدا کا شکر ادا کرتے ہیں کہ انہیں اللہ نے سیاسی ”عبادت“ کے لئے قلم بلکہ کلم عطا کیا ہے۔ وہ جس انداز سے خوشامدانہ کالم لکھتے ہیں تو قلم کو کلم ہی کہنا چاہئے۔ اب نواز شریف اور شہباز شریف کو پتہ چل گیا ہے کہ اس نے 99 فیصد اہل قلم کو مسلم لیگ ن سے بیزار کر دیا ہے۔
مجھے اندیشہ ہے کہ عمران خان پرویز خٹک کو بھی اپنا یہ بیان واپس لینے کا حکم نہ دے دیں۔ میں نے جاوید ہاشمی کے لئے دوستانہ کالم لکھا تھا پھر مجھے غیر دوستانہ کالم لکھنا پڑا۔ میں ایسا پرویز خٹک کے لئے نہیں کروں گا کہ وہ میرے دوست نہیں ہیں۔
اس سے پہلے تینوں صوبوں کے عوام یہ مطالبہ کر چکے ہیں کہ ہمیں شہباز شریف جیسا وزیر اعلیٰ دیں۔ اسلم رئیسانی نے اس پر احتجاج کیا تھا اور ایوان صدر میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا مگر اس سے پہلے صدر زرداری نے انہیں جاتی عمرہ لاہور جانے کا حکم دے دیا تھا۔ ایک دفعہ پہلے پرویز خٹک نے کسی صحافی کے سوال پر کہ آپ شہباز شریف کی پیروی کریں گے۔ انہوں نے کمپلیکس بھرے لہجے میں کہا کہ وہ میری پیروی کریں۔ ایک بار پرویز خٹک نے صوبہ خیبر پختونخوا کو بار بار صوبہ سرحد کہا۔ ہمیں اچھا لگا اور زیادہ اچھا لگا کہ انہوں نے تردید نہیں کی۔ اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ پانچ سال پورے کریں گے۔ وہ فوراً کہہ دیں گے کہ اگر شریف برادران پانچ سال پورے کریں گے تو ہم بھی کریں گے۔ مولانا فضل الرحمن کی سرحد حکومت نے پانچ سال پورے کئے۔ حضرت مولانا کے وزیر اعلیٰ اکرم درانی کی وہی حالت تھی جو وزیراعظم شوکت عزیز کی تھی جو صدر زرداری کے دونوں وزیراعظم کرپٹ گیلانی صاحب اور راجہ رینٹل کی تھی۔ شہباز شریف نے بھی پانچ سال پورے کر لئے کہ تب نواز شریف وزیراعظم نہ تھے۔ اب انہیں نواز شریف کی نگہبانی کرنا پڑے گی ورنہ چودھری نثار ڈپٹی وزیراعظم اب بھی ہیں۔ چند مہینوں کے بعد نئے آرمی چیف کا تقرر بھی کرنا ہے۔ پرویز خٹک مطمئن ہیں کہ ان کے ہم نام پرویز الٰہی نے پانچ سال نکال لئے تھے۔ ہمارے ملک میں پرویز نام کی بڑی ”قسمت“ ہے ورنہ یہ اس بدقسمت حکمران کا نام تھا جس نے رحمت العالمین رسول کریم حضرت محمد کا خط پھاڑ کر پھینک دیا تھا اور پھر اس کی حکومت بھی ٹکڑے ٹکڑے ہو کر ٹوٹ گئی تھی۔ پرویز مشرف، پرویز اشرف، پرویز رشید، پرویز ملک، جنرل کیانی کو لوگ اشفاق پرویز کیانی کم کم لکھتے ہیں۔
پرویز الٰہی کے زمانے میں لوٹے سیاستدان ریاض فتیانہ نے پرویز الٰہی سے کہا کہ میں نے اپنے شہر میں ایک کالونی بنائی ہے جس کا نام پرویز ٹاﺅن رکھا ہے وہاں موجود جینوئن اور دلیر بیوروکریٹ جی ایم سکندر نے بے ساختہ کہا کہ آپ وہاں پرویز مشرف اور پرویز الٰہی دونوں کو بلا کر افتتاح کراﺅ نجانے آج کل فتیانہ صاحب کے پرویز ٹاﺅن کا نام کیا ہے؟ اس کا نام شریف کالونی رکھا جا سکتا ہے مگر اب تو وہ اسمبلی کا ممبر نہیں بن سکا۔ اگر خدانخواستہ کالونی کا نام پرویز ٹاﺅن ہے تو پرویز رشید کو بلا کے دوبارہ افتتاح کرایا جا سکتا ہے۔ شریف برادران تو وہاں نہیں جائیں گے۔
عمران خان نے پرویز خٹک کو سرکاری ہیلی کاپٹر ذاتی معاملے کے لئے استعمال کرنے پر جرمانہ کر دیا ہے اور انہیں پارٹی عہدہ چھوڑنے کا حکم دیا ہے۔ پرویز خٹک نے کہا ہے کہ پہلے خان صاحب نے دونوں عہدے رکھنے کا خود بلکہ خود بخود حکم دیا تھا۔ تحریک انصاف کے سابق لیڈر سردار آصف احمد علی نے کہا کہ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک ہیں یا عمران خان ہیں۔ خیبر پختونخوا کے وزیر اسلام آباد میں عمران خان کے پاس حاضر رہتے ہیں۔ سردار آصف احمد علی کے بقول یہ سیاسی تھانیداری ہے۔
عمران خان نے کہا ہے کہ ہم خیبر پختونخوا سے بجلی سارے ملک کو فراہم کریں گے مگر کیسے؟ ایک آدمی بار بار اپنے پالتو طوطے سے کہتا میاں مٹھو چوری کھانی ہے۔ طوطا چپ تھا۔ طوطا بہت جلد طوطا چشم بن جاتا ہے جب مالک نے بہت ضد کی تو طوطا بولا ہاں مگر کتھوں؟ خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ تو کہتے ہیں کہ کالاباغ ڈیم بننے سے نوشہرہ ڈوب جائے گا۔ یہی اے این پی کے سیاستدان کہتے ہیں یعنی کالاباغ ڈیم نہیں بنے گا تو بجلی کہاں سے آئے گی۔ مگر اس سے اہم بات یہ بھی ہے کہ عمران خان کئی بار اعلان کر چکے ہیں کہ ہم کالاباغ ڈیم بنائیں گے۔ جنرل ضیاءکالاباغ ڈیم کے حق میں تھے اور صوبہ سرحد کا گورنر جنرل فضل حق خلاف تھا۔ وہ دونوں اور یہ دونوں آپس میں ملے ہوئے ہیں۔
پرویز خٹک نے یہ کہہ کر ہمیں حیران کر دیا ہے کہ وہ شہباز شریف کے نقش قدم پر چلیں گے۔ یہ بات انہوں نے کچھ عرصہ پہلے کہی ہوتی تو شہباز شریف چین کے دورے پر پرویز خٹک کو بھی ساتھ لے جاتے۔ وہ اس کے لئے بھی عمران خان کی ناراضگی کی پرواہ نہ کرتے۔ شہباز شریف نے انتخابی تقریروں میں کہا تھا کہ لوڈشیڈنگ چھ مہینوں میں ختم نہ کی تو میرا نام شہباز شریف نہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ نام نہ بدلیں نظام بدلیں۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ نے کہا ہے کہ اب بھی شہباز شریف کو مینار پاکستان میں ٹینٹ لگا کے لوڈشیڈنگ کے خلاف سرکاری احتجاج کرنا چاہئے۔ عمران خان بھی توانائی کے بحران کے لئے بہت بے قرار تھے مگر وہ اے پی سی میں شرکت کرنے کی بجائے لندن چلے گئے۔ پرویز خٹک کو انہیں روکنا چاہئے تھا۔ اے پی سی میں ان کی نمائندگی شاہ محمود قریشی کو نہیں کرنا چاہئے۔ وہ تو انہی کا آدمی ہے۔ جاوید ہاشمی بھی اندر اندر سے انہی کا آدمی ہے۔ وہاں تحریک انصاف کی نمائندگی پرویز خٹک کر سکتے ہیں۔ بہانہ علاج کا ہے۔ شہزادہ چارلس سے ملاقات بھی علاج کا حصہ ہے کہ وہاں شہزادہ چارلس کی دوسری بیوی بھی موجود تھی۔ عمران لندن میں اپنے بچوں سے بھی ملیں گے۔ ایک بچہ کہنے لگا کہ میرے ابو بڑے ڈرپوک ہیں ہمیشہ سڑک پار کرنا ہو تو فوراً میری انگلی پکڑ لیتے ہیں۔