آخر کار ، قومی خزانے سے، 82ارب روپے غبن کرنے والا، اوگرا کا مفرور چیئرمین، توقیر صادق پکڑ کر پاکستان لایا گیا، ہتھکڑی لگا کر پیش کِیا گیا اور اسلام آباد کی احتساب عدالت نے، اُس کا 14روز کا جسمانی ریمانڈ دے کر، نیب کے حوالے کر دیا۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر، قبل ازیں خائن اور مفرور ملزم، توقیر صادق کی جو تصویر دکھائی یا چھاپی جاتی تھی، وہ پکڑے جانے والے، ملزم سے مختلف ہے۔ سر اور چہرے پر آدھے سے زیادہ سفید بال والا، توقیر صادق، کیا واقعی وہی ہے، جو کوٹ کے ساتھ ٹائی لگائے اور چہرے پر دانشوروں کی طرح چشمہ سجائے، ٹیلی وژن پر دِکھایا جاتا تھا؟۔ کہا جاتا ہے کہ توقیر صادق، پاکستان پیپلز پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل، سینیٹر جہانگیر بدر کابرادرِ نسبتی ہے۔ یہ ۔”برادرِ نسبتی“۔ کی ترکیب بھی خوب ہے۔ بہنوئی ہو یا سالا۔ دونوں کو۔ ”برادرِ نسبتی“۔ کہا جاتا ہے۔ توقیر صادق ۔ جناب جہانگیر بدر کا بہنوئی ہے یا سالا؟۔ فی الحال واضح نہیں۔ اگر بہنوئی ہے تو بھی، ساری پیپلز پارٹی کے لئے قابلِ احترام ٹھہرا اور اگر سالا ہے تو۔”ساری خدائی ایک طرف ۔جورُو کا بھائی ایک طرف “۔کیا دبدبہ ہے توقیر صادق کا؟۔ کہ اُس کا نام ،الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے بعض اصحاب، اب بھی احترام سے لیتے اور لِکھتے ہیں۔ مثلاً۔ ”توقیر صادق 82ارب روپے کی کرپشن میں ملوث ہیں“۔ توقیر صادق دسمبر 2012 ءمیں مُلک سے باہر چلے گئے تھے“۔”توقیر صادق اب نیب کی حراست میں ہیں“۔ وغیرہ وغیرہ ۔کیا۔”ٹوہر“۔ ہے، جناب جہانگیر بدر کے برادرِ نسبتی کی کہ، عدالت میں پیش ہونے سے قبل، اُسے، الیکٹرانک میڈیا پر گرجنے اور برسنے کا موقع دیا گیا!۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ، اُسے پاکستان لانے سے پہلے۔ دوبئی میں ٹیلی فون یا سکائپ پر، پاکستان میں اپنے۔” عقیدت مندوں“۔ سے خطاب کا موقع بھی دے دِیا جاتا ؟۔”الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے“۔ کے مِصداق ۔ملزم توقیر صادق نے کہا۔ ”نیب حکام مجھے دھمکیاں دے رہے ہیں ۔ کہتے ہیں۔ میری ٹانگیں توڑ دیں گے۔ مجھے جان سے مارنے کی دھمکی دی جا رہی ہے۔ زبردستی اعترافِ جُرم کرایا جا رہا ہے۔ مجھ پر صدر زرداری کے خلاف گواہ بننے پر دباﺅ ڈالا جا رہا ہے“۔یعنی۔ وِلن ۔ ہیرو ، بننے کی کوشش میں۔ بالکل مرحوم فلم ایکٹرسُلطان راہی کا انداز۔ توقیر صادق کے پاس اگر، اصلی ڈگری ہوتی تو شاید، اُس کا انداز،پیشہ ور کَن ٹُٹّوں“۔ کی طرح ہوتا۔ مَیں نے لڑکپن میں ،ایک انڈین فلم میں دیکھا تھا کہ، پولیس کے دو سپاہی، ایک چور (فلم سٹار یعقوب مرحوم) کو ہتھکڑی لگا کر، تھانے لے جارہے تھے۔ ایک چوک میں، چور نے، سپاہیوں کی منت کی کہ ۔”دو منٹ کے لئے رکو!“۔ سپاہی رُک گئے تو، چور نے فوراً،ایک چبوترے پر چڑھ کر، راہگیروں سے مخاطب ہو کر اور ہتھکڑی لگا ہاتھ بلند کر کے کہا۔ ”بھائیو! ہم سب کچھ برداشت کر سکتے ہیں، لیکن انگریز کی غلامی برداشت نہیں کر سکتے!“۔ وغیرہ وغیرہ۔ لوگ چور کو، تحریکِ آزادی کا ہیرو سمجھے اور انہوں نے، اُسے سپاہیوں سے چھڑا لیا۔پھر چور بھاگ گیا، لیکن توقیر صادق کی گرفتاری اور الیکٹرانک میڈیا پر اُس کی ۔”تقریر“۔ کوئی فلمی منظر نہیں تھا۔ اُس کے وہ سرپرست جنہوں نے، اُسے اوگرا کا چیئرمین مقرر کرایا، 82ارب روپے غبن کرنے اور مُلک سے فرار ہونے میں مدد دی،وہ خود اپنی جانیں بچانے کی فکر میں ہیں۔ ”ہم قُربانیوں سے نہیں ڈرتے“۔ اور ۔ ”ہماری پارٹی۔ شہیدوں کی پارٹی ہے“۔ قِسم کے مکالمے، اب نہیں چل سکتے!۔26جنوری کو، اوگراکرپشن کیس کی سماعت کرنے والے، جسٹس جواد۔ ایس۔ خواجہ اور جسٹس خلجی عارف حسین پر مشتمل سپریم کورٹ کے ،دو رُکنی بنچ نے ،نیب حُکام کو حُکم دیا تھا کہ۔ ”توقیر صادق کا چیئرمین اوگرا کی حیثیت سے تقرر اور اُسے مُلک سے فرار کرنے میں اُس کی مدد کرنے پر، ایک ہفتے کے اندر اندر، وزیرِ اعظم راجا پرویز اشرف، وزیرِ داخلہ رحمن ملک اور پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل ،جہانگیر بدر کے خلاف ریفرنس دائر کرکے، 30جنوری تک (عدا لت میں) رپورٹ پیش کی جائے“۔ چیئرمین نیب، ایڈمرل(ر) سیّد فصیح بخاری نے حکمران پارٹی کی خوشنودی کے لئے، اپنی ۔”نوکری اور عِزتِ سادات“۔ گنوالی۔سپریم کورٹ کے جج صاحبان کے خلاف خط لِکھ کر اور اُس کی تشہیر کر کے خود کو، توہینِ عدالت کا مرتکب بھی ٹھہرا لِیا۔یاد رہے کہ، راجا پرویز اشرف جب وفاقی وزیر پانی و بجلی تھے تو، اُن کی چیئرمین شِپ میں 5رُکنی کمیٹی نے، توقیر صادق کا بحیثیت چیئرمین اوگرا تقرر کر کے، اُس کی سمری، منظوری کے لئے ،وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کو بھجوادی تھی۔ وزیرِ اعظم گیلانی نے، سمری ،منظور کرکے ،توقیر صادق کے تقرر پر، مُہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔24جنوری کو نیب کے ڈائریکٹر نے ،سپریم کورٹ کو بتایا تھا کہ ۔ ”ملزم توقیر صادق کو،پاکستان سے فرار کرانے میں، وزیرِ داخلہ رحمن ملک اور سینیٹر جہانگیر بدر کا ہاتھ ہے“۔اِ س سے قبل پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثنا اللہ نے الزام لگایا تھا کہ ۔”توقیر صادق کو،گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے، گورنر ہاﺅس میں چھپا رکھا ہے“۔10جولائی کو، اوگراکرپشن کیس کی سماعت کے دوران، سپریم کورٹ نے، احتساب بیورو سے، توقیر صادق کو گرفتار کرکے وطن واپس لانے کے اخراجات کی تفصیل طلب کر لی ہے اور پوچھاہے کہ۔ ” یہ بھی بتایا جائے کہ یہ اخراجات کون ادا کرے گا“۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی پوچھا کہ توقیر صادق کو فرار کرانے میں جن لوگوں نے مدد کی، اُن کے خلاف کیا کاروائی کی گئی ہے؟“۔سابق وزرائے اعظم ، یوسف رضا گیلانی ، راجا پرویز اشرف، وزیرِ داخلہ رحمن ملک فی الحال چُپ کا روزہ رکھے ہُوئے ہیں۔ اُن کے سروں پر گرفتاری کی تلوار لٹک رہی ہے۔ وہ مُلک سے فرار ہونے کی پوزیشن میں بھی نہیں ہیں اورنہ ہی اُنہیں میڈیا پر قربانیوں کی داستان سنانے سے کچھ فائدہ ہوگا۔ جو کچھ کرنا ہے، عدالت نے ہی کرنا ہے۔ توقیر صادق نے، خوامخواہ صدر زرداری کا نام لے کر،خُود کو اہمیت دینے کی کوشش کی ہے۔ صدر زرداری کا(کم از کم) توقیر صادق کی خیانت اور فرار سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ توقیر صادق ۔تفتیش کے دوران اور پھر عدالت میں کیا موقف اختیار کرے گا؟۔ فی الحال کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ نیب حکام کو اُس کی ٹانگیں توڑنے سے کیا مِلے گا؟۔ وہ تو ملزم سے،اُس کے شُرکائے کار اور سرپرستوں کے بارے میں جاننا چاہیں گے توقیر صادق کی جان ،بہت قیمتی ہے۔ اُس کے اپنے سر پرست ، حوالات میں ممکن ہے زہریلی خوراک بھجوا کرمر وا دیں۔ توقیر صادق خود کُشی بھی کر سکتا ہے۔تفتیشی نیب حُکام کی ذمہ د اریاں بہت بڑھ گئی ہیں ۔ اگر توقیر صادق حرام موت مر گیا تو۔” ہالی وُڈ “۔والے نہ سہی تو۔” بالی وُڈ“۔ والے اُس کے بارے میں فلم بناکر شاید 82ارب سے زیادہ روپیہ کما لیں!۔
توقِیر صادق۔ خُودکُشی نہ کرلے !
Jul 12, 2013