اسلام آباد (نیشن رپورٹ+آن لائن) سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کیس میں ریمارکس دیئے ہیں کہ سی آر پی سی یا کوئی اور قانون فوجی افسروں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے سے نہیں روکتا۔ ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل کی طرف سے موقف اختیار کیا گیا تھا کہ عدالتوں اور پولیس کو کسی فوجی افسر کے خلاف کارروائی کا اختیار نہیں جس پر جسٹس اعجاز افضل نے واضح کیا کہ ضابطہ فوجداری کوڈ (کریمنل پروسیجر کوڈ) کسی فوجی افسر کے خلاف مقدمہ درج کرنے سے نہیں روکتا۔ سپریم کورٹ بنچ نے لاپتہ افراد کے کیس کی سماعت کی۔ ملٹری انٹیلی جنس کے وکیل ابراہیم ستی نے اعتراض کیا کہ پولیس نے عابدہ ملک کی رپورٹ پر میجر حیدر کے خلاف مقدمہ درج کرلیا ہے حالانہ وہ حاضر سروس فوجی افسر ہیں۔ واضح رہے عابدہ ملک کے شوہر لاپتہ ہیں۔ ابراہیم ستی نے کہا کہ فوجی افسروں کا ایک خصوصی سٹیٹس ہے پولیس کس طرح مقدمہ درج کرسکتی ہے جس پر جسٹس جواد خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین کے تحت ہر شہری کو خصوصی سٹیٹس حاصل ہے اور ہر کوئی اپنے ملک سے وفادار ہے جس پر ابراہیم ستی نے کہا کہ فوجی افسر کے حلف میں آئین کے تحفظ کا ذکر شامل نہیں ہے۔ جب عدالت نے ان کے اہلخانہ سے استفسار کیاکہ اب ان کی صحت کیسی ہے تو زیرحراست فصیح اللہ کے بھائی ضیاءاللہ نے بتایا کہ جب انہوں نے اپنے بھائی سے ملاقات کی تواس سے اٹھا بھی نہیں جا رہا تھا وہ بہت کمزور ہو چکا ہے ۔حراستی مراکز میں قید افراد کو صرف ایک روٹی کھانے کو ملنے کے ساتھ طرح طرح کی اذیتیں دی جا رہی ہیں۔ جس پر عدالت نے سخت تشویش کا اظہارکیا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ان کو معقول کھانا کیوں نہیں دیا جا رہا۔ یہ سلوک ناقابل قبول ہے ہم وہ ہر قدم اٹھائیں گے جس کی آئین اور قانون اجازت دیتا ہو۔ ڈیفنس آف ہیومن رایٹس کی چیئر پرسن آمنہ جنجوعہ نے عدالت کوبتایا کہ حراستی مراکز میں کل 402 افراد ہیں، کیا ان تمام افراد کو الگ الگ سپریم کورٹ میںا پیلیں داخل کر نا پڑیں گی۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہاکہ الگ الگ اپیلیں داخل کرانے کی ضرورت نہیں ابھی ان معاملات میں کچھ پیشرفت ہو رہی ہے۔ اور اگر ضرورت پڑی تو حراستی مراکز میں موجود لاپتہ افراد کو طلب کرکے ان کی صحت کا اندازہ لگایا جائے گا۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ فوج اور حساس اداروں کو عزت آئین و قانون نے دی ہے اور فوج سمیت تمام سویلین کے حقوق کا بھی نگہبان ہے ۔ کتنے افسوس کا مقام ہے کہ جن ضروری اشیاءکی فراہمی کی قانون اجازت دیتا ہے حراستی مراکز ان پر عملدرآمد کی بجائے خلاف ورزی کیوں کررہے ہیں ۔جب تک لوگ اپنے گھروں میں واپس نہےں آجاتے،ہماری کوشش جاری رہےں گی، لال مسجد آپرےشن کے دوران لوگوں کو ان کے پےاروں کی نعشیں نہےں مل سکی ہےں،رےلےف تک نہےں دےا گےا، لال مسجد کےس بہت اہم اور سنجےدہ نوعےت کا کےس ہے جس کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتے ہےں،کےس کی الگ سے سماعت کی جائے گی، انہوں نے ےہ رےمارکس گزشتہ روز دئےے ہےں اس دوران عدالت نے اےڈےشنل اٹارنی جنرل طارق محمود کھوکھر کو حکم دےا ہے کہ حراستی مراکز مےں موجود84افراد مےں سے7افراد کی اپنے اہلخانہ سے 15 جولائی تک ہر صورت ملاقات کرائی جائے اور اس کی رپورٹ عدالت مےں پےش کی جائے، عدالت نے اپنے حکم مےں مزید کہا ہے کہ حراستی مراکز مےں زےر حراست افراد کے بھی حقوق ہےں،ان کا مکمل احترام کےا جائے،عدالت نے ےہ حکم ےعقوب،ابراہےم،اختر جاوےد،ساجد حسےن،ماجد حسےن اور جمشےد رضا سے ان کے رشتہ داروں کی ملاقات کے حوالے سے دےا ہے،عدالت نے گزشتہ روز عمرزادہ، عمر بخت، خےر الرحمان، ڈاکٹر تاسف احمد، غلام سجاد، امداد اللہ، فصےح اللہ اور 84افراد کے مقدمات کی الگ الگ سماعت کی،عمرزادہ اور عمر بخت کے حوالے سے تفتےشی احسان الٰہی نے عدالت کو بتاےا کہ انہوں نے ان لوگوں کا سراغ لگا لےا ہے جنہوں نے اےس آئی بشےر سے دونوں بھائےوں کو حاصل کےا تھا ان افراد کا تعلق آئی اےس آئی سے ہے، اب ان کو کسٹڈی مےں لےنے کےلئے انہےں وقت دےا جائے، اس پر عدالت نے اےڈےشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر کو ہداےت کی کہ اس حوالے سے پولےس کی مدد کی جائے۔