جس آئی جی کو قانون کا پتہ نہ ہو فارغ کر دینا چاہئے‘ اب بڑے مجرم چھوڑے نہیں جائیں گے: سپریم کورٹ

اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت + نوائے وقت نیوز + ثناءنیوز + بی بی سی) سپریم کورٹ نے آئی جی اسلام آبا د بنیامین خان کی بہو وحیدہ خان عرف پلوشہ کی پراسرار موت سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے بعد فیصلہ محفوظ کر لیا ہے جو جلد سنایا جائے گا۔ پشاور پولیس کی جانب سے بتایا گیا ہے کہ تھانہ ٹا¶ ن پشاور پولیس نے قتل کی ایف آئی آر درج کر کے مقتولہ کے بھائی اور بھاوج کو گرفتار کر لیا ہے۔ خیبر پی کے حکومت کی جانب سے بتایا گیا کہ تھانہ ٹا¶ن کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے قتل کا مقدمہ درج نہ کرنے کے حوالے سے انکوائری کرائی جا رہی ہے جس کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی سربراہی میں جسٹس اعجاز احمد چودھری اور جسٹس شیخ عظمت سعید پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو درخواست گذار بی بی زاہدہ، آئی جی اسلام آباد بنیامین خان اور اسلام آباد خیبر پی کے پولیس کے متعلقہ افسر اور اہلکار موجود تھے۔ سماعت شروع ہوئی تو پشاور پولیس کی جانب سے بتایا گیا کہ تھانہ ٹا¶ن پشاور پولیس نے قتل کی ایف آئی آر درج ہے جس میں مقتولہ کے والد دریا خان، بھائی خالد اور بھابی کو نامزد کرتے ہوئے مقتولہ کے بھائی اور بھاوج کو گرفتار کر لیا ہے۔ جسٹس اعجاز احمد چودھری نے خیبر پی کے کے آئی جی انعام الغنی کے وکیل لطیف آفریدی سے استفسار کیا کہ درخواست کے مطابق مرنے والی لڑکی کی موت طبعی نہیں تھی۔ کیا یہ بات ایف آئی آر درج کرنے کے لئے کافی نہیں تھی؟ فاضل وکیل نے کہا کہ وحیدہ کے جسم پر تشدد کا کوئی نشان نہیں تھا اس لئے ایف آئی آر درج نہیں کی گئی تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس والے جج نہیں۔ پولیس کو ایف آئی آر کے ا ندراج سے انکار کا حق بھی نہیں۔ 19 مئی کے وقوعہ کی ایف آئی آر 10 جولائی کو درج کی گئی ہے، مقدمہ میں اثرانداز ہونے کا مقصد شواہد ضائع کرنا ہے۔ وکیل نے کہا کہ آپ پولیس کا مورال ڈا¶ن کر رہے ہیں، پولیس نے ایسا کوئی کام نہیں کیا کہ شواہد ضائع ہوں۔ جسٹس شیخ عظمت نے کہا کہ کیا خیبر پی کے حکومت سمجھتی ہے کہ سب کچھ ٹھیک ہو رہا ہے۔ آئی جی اسلام آباد بن یامین نے عدالت میں م¶قف اختیار کیا کہ میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ میرے چھوٹے چھوٹے پوتوں کی ماں مری ہے، جتنے مرحومہ کے رشتہ دار متاثر ہوئے ہیں اتنا ہی ہمارا خاندان بھی متاثر ہوا۔ اس کیس کی بنا پر میری عزت سربازار نیلام ہوئی، مجھے جب وقوعہ کی اطلاع ملی تو میں خود پشاور گیا اور متعلقہ تھانہ کے محرر سے لے کر خیبر پی کے کے آئی جی تک کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ایف آئی آر درج کریں لیکن کسی نے میری سنی ہی نہیں۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی خیبر پی کے کی کیا جرا¿ت تھی کہ آپ کی بات نہ مانتے، اگر ایف آئی آر درج نہیں ہو رہی تھی تو اگلے روز اندراج کے لئے عدالت میں درخواست دے دیتے۔ جسٹس اعجاز چودھری نے کہا کہ اس حوالے سے ریکارڈ پر آپ کی جانب سے کوئی درخواست نہیں آئی۔ آئی جی خیبر پی کے نے اس موقع پر آئی جی اسلام آباد کی حمایت کی تو چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بننے کی کوشش کی ہو گی۔ عدالت نے خیبر پی کے حکومت پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل ارشد شاہ سے استفسار کیا کہ نئی حکومت نے اس حوالے سے اب تک کیا کارروائی عمل میں لائی ہے تو انہوں نے بتایا کہ متعلقہ ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا ہے۔ پولیس کی جانب سے قتل کا مقدمہ درج نہ کرنے کے حوالے سے انکوائری کروائی جا رہی ہے جس کی روشنی میں ذمہ داروں کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔ عدالت کے استفسار پر ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے بتایا کہ کیس پشاور منتقل کر دیا گیا ہے کہ انہوں نے اس حوالے سے اٹارنی جنرل کو آگاہ کر دیا ہے تاہم سردست ان کو اس حوالے سے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔ آئی این پی کے مطابق سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ پولیس افسر شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بننے کی کوشش کرتے ہیں، جب تک خود احتسابی کی روایت نہیں چلے گی معاشرے کار بگاڑ کیسے ٹھیک ہو سکتا ہے، عدالتیں قانون پر عمل درآمد ہر صورت یقینی بنائیں گی، پہلے بڑے لوگ جرائم میں ملوث ہوتے تھے تو انہیں چھوڑ دیا جاتا تھا لیکن اب کوئی ایسی توقع نہ رکھے، وفاقی اور خیبر پی کے حکومت بتائے کہ غلط اقدامات کرنے والوں کے خلاف کیا اقدامات کئے گئے، اگر عدالتیں بااثر افراد کے غیر قانونی اقدامات کے خلاف نوٹس نہیں لیں گی تو نظام کیسے ٹھیک ہو گا۔ عدالت نے کہا کہ آئی جی خیبر پی کے بڑے فخر سے کہہ رہے ہیں کہ ایف آئی ار درج نہیں کی۔ بظاہر آئی جی خیبر پی کے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار لگ رہے ہیں۔ قبر پر 6 دن تک پہرا رہا اور سب افسر اپنے آپ کو مبرا قرار دے رہے ہیں۔ وقوعہ پشاور میں ہوا اور ایف آئی آر اسلام آباد تھانے میں درج ہوئی آئی جی اسلام آباد سمارٹ بن رہے ہیں جس آئی جی کو قانون کا پتہ ہی نہ ہو ایسے آئی جی کو تو فوری طور پر فارغ کر دینا چاہئے۔ آئی جی اسلام آباد چاہتے تو آئی جی خیبر پی کے کے خلاف ہائیکورٹ سے رجوع کر سکتے تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ 19 مئی کو واقعہ ہوا اور مقدمہ 10 جولائی کو درج ہوا جسٹس اعجاز احمد چودھری نے کہا کہ پوسٹمارٹم میں موت طبعی نہیں تھی اس بنیاد پر پرچہ درج ہونا چاہئے تھا مقتولہ کی والدہ نے اپنے شوہر اور بیٹے پر الزام لگایا کہ واقعہ کی ایف آئی آر درج نہیں کرائی گئی ۔ خیبر پی کے میں نئی حکومت آئی ہے اس سے کیا تبدیلی آئی کیا ایف آئی آر درج کرنے کے لئے یہ کافی نہیں کہ موت طبعی نہیں تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ پولیس جج نہیں پولیس کا مقدمہ درج نہ کرنا قابل مذمت ہے آئی جی خیبر پی کے کی بدنیتی کا فیصلہ متعلقہ فورم پر ہو گا آئی جی اسلام آباد بیان ریکارڈ کراتے ہوئے وہ آبدیدہ بھی ہو گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی بہو وحیدہ بی بی کی نعش دیکھ کر لگتا تھا کہ ان کو زہر دیا گیا ہے نعش پیلی ہو چکی تھی۔ چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ انہوں نے واقعہ کا مقدمہ درج کیوں نہیں کرایا تو اس پر بنیامین خان کا کہنا تھا کہ دو مدعی ہونے سے کیس کے خراب ہونے کا خدشہ تھا بنیامین خان کا کہنا تھا ان کے ڈرائیور نے فون کر کے بتایا کہ ان کی بہو سیڑھیوں سے گر کر جاںبحق ہو گئی۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ وحیدہ بی بی کی قبر پر گارڈز تعینات کئے گئے تھے یہ کہاں سے بھیجے گئے تھے آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ ان کی بہو کا قتل ہوا اور عزت بھی ان کی نیلام ہوئی۔ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے عدالت کو بتایا کہ کیس کی جلد انکوائری کے لئے احکامات جاری کئے جائیں گے چیف جسٹس نے کہا کہ اتنے دن گزر گئے وفاقی اور صوبائی حکومتیں سو رہی تھیں چیف جسٹس نے آئی جی اسلام آباد سے استفسار کیا کہ کیا وہ اپنا وکیل مقرر کریں گے تو بنیامین خان کا کہنا تھا ان کے پاس وکیل کرنے کے لئے پیسے نہیں۔ جسٹس اعجاز چودھری کا کہنا تھا کہ مقدمہ درج کرنے کے لئے بنیامین خان کی کوئی درخواست ریکارڈ پر نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مقدمہ درج نہ کرنے کی ذمہ داری آئی جی پر عائد ہوتی ہے۔ مقدمہ کے اندراج کے بغیر نعش پشاور سے اسلام آباد کیسے آ گئی۔ ایڈووکیٹ جنرل خیبر پی کے نے کہا کہ مقتولہ کی فیملی نعش خود لے کر آئی چیف جسٹس نے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل سے کہا کہ آپ نے مقدمہ درج کیوں نہیں کیا کسے بچانا چاہتے ہیں ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ وقوعہ چونکہ پشاور میں ہوا تھا اس لئے اس کی رپورٹ اسلام آباد میں درج کرنا کسی طور پر بھی درست نہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ مرحومہ کی بہن نے درخواست دی کہ وحیدہ کی قبر پر کئی دن پہرہ رہا، بتایا جائے پولیس کا پہرہ کیوں لگایا گیا۔ ایس پی صدر نے کہا میں نے بھی سنا تھا کہ قبر پر گارڈ لگوائے گئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا وہ نفری کہاں سے گئی تھی؟ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی خیبر پی کے کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی گئی کیا آئی جی کے خلاف کارروائی سے پر جلتے ہیں؟ جب تک حکمران ایسی صورت حال کا نوٹس نہیں لیں گے نظام ٹھیک نہیں چلے گا۔ عدالتیں تو اپنا کام کرتی رہیں گی۔ پشاور میں ہونے والے قتل کا مقدمہ اسلام آباد کیوں رجسٹرڈ کرایا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا بتایا جائے قبر پر پہرہ کیوں اور کس نے لگوایا جانورنعش نکال کر نہ لے جائیں اس لئے پہرہ لگا دیا گیا ہو گا۔ بی بی سی کے مطابق سپریم کورٹ نے وفاقی اور صوبہ خیبر پی کے کی حکومتوں سے کہا ہے کہ وہ تحریری طور پر آگاہ کریں کہ وہ اسلام آباد اور صوبہ خیبر پی کے کی پولیس کے سربراہوں کی جانب سے قتل کا مقدمہ درج نہ کرنے اور شواہد مٹانے سے متعلق ان کے خلاف کیا اقدامات کر رہی ہیں۔ عدالت کا کہنا ہے کہ بادی النظر میں پولیس کے ان افسروں سمیت ماتحت عملے نے قتل کے شواہد کو ختم کرنے کے لئے اقدامات کئے جو ایک سنگین جرم ہے۔ خیبر پی کے کے ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مقتولہ وحیدہ شاہ کی والدہ نے جب اس واقعہ سے متعلق مقدمہ درج کرنے کے لئے درخواست دی تھی تو اس وقت تک ایسے شواہد سامنے نہیں آئے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ مقتولہ کی موت زہر دینے سے نہیں بلکہ دم گھٹنے کی وجہ سے ہوئی ہے۔ اس رپورٹ کے بعد یونیورسٹی ٹاو¿ن پشاور میں قتل کا مقدمہ درج کیا گیا، اس بارے میں مقتولہ کے بھائی اور بہن کو حراست میں لے لیا ہے۔ ایڈشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ غفلت برتنے پر ایس ایس پی آپریشنز اور متعقلہ تھانے کے ایس ایچ او کو معطل کر دیا گیا تھا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ صوبے کی پولیس کے سربراہ کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کی جاتی۔ بنیامین نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے جب اپنی بہو کی نعش کو دیکھا تو اس کے ہاتھ اور پاو¿ں نیلے ہو چکے تھے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ شاید انہیں زہر دیا گیا ہے۔ بنچ کے سربراہ نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ سے استفسار کیا کہ اگر اس واقعہ کا مقدمہ پشاور میں درج نہیں کیا گیا تو پھر کس قانون کے تحت اس واقعہ کا مقدمہ اسلام آباد میں درج کیا گیا۔ بنیامین کا کہنا تھا کہ مقتولہ کی والدہ اور اس کے رشتہ دار نعش اسلام آباد لے آئے تھے اور کہا تھا کہ اس وقت تک نعش کو نہیں دفنایا جائے گا جب تک اس واقعہ کا مقدمہ درج نہیں ہو جاتا۔ صدر سرکل کے ایس پی جمیل ہاشمی نے بتایا کہ ان کے علم میں لائے بغیر ان کے علاقے کی حدود میں مقدمہ درج کیا گیا۔ جب ان کے علم میں یہ بات آئی تو انہوں نے اسلام آباد پولیس کے سربراہ کو اس مقدمے کو ختم کرنے کے بارے میں کہا۔ مقتولہ کی قبر پر چھ روز تک پولیس کا پہرہ بھی ان کے نوٹس میں لائے بغیر لگایا گیا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے کا اندراج پشاور میں ہی ہونا چاہئے تھا، اسلام آباد میں درج ہونے والہ مقدمہ خلاف قانون ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن