بوسنیائی مسلمانوں کے قتل عام کی 20 ویں برسی‘ تقریب میں سرب وزیراعظم پتھرائو سے زخمی

Jul 12, 2015

سربرینیکا (بوسنیا ہرزیگووینا) (اے ایف پی+ رائٹر+ نوائے وقت رپورٹ) بوسنیائی سرب افواج کے ہاتھوں سربرینیکا میں بوسنیا کے 8 ہزار مسلمانوں کے قتل عام کی 20 ویں برسی پر دعائیہ تقریبات ہوئیں۔ اس موقع پر تقریب میں شریک ناراض افراد نے سربیا کے وزیراعظم الیگزینڈر ووکک پر پتھراؤ کیا اور بوتلیں برسائیں۔ سربیا کی سرکاری ایجنسی تانجگ کے مطابق ایک پتھر سرب وزیر اعظم کے سر پر لگا اور انکا چشمہ ٹوٹ گیا جس کے باعث وہ تقریب سے چلے گئے۔ سربین وزیر داخلہ کے مطابق وزیراعظم پر یہ پتھراؤ قاتلانہ حملہ ہے۔ سربیا نے اسے اپنے ملک پر حملہ قرار دیا ہے اور کابینہ کا ہنگامی اجلاس بلا لیا ہے۔ واضح رہے کہ سرب فوج نے 1995ء میں 8 ہزار مسلمانوں کا قتل عام کیا تھا۔ 1995ء میں سرب فوج کی جانب سے 8 ہزار مسلمان مرد اور بچوں کے قتل عام کو یورپ میں دوسری جنگِ عظیم کے بعد بدترین قتل عام قرار دیا جاتا ہے۔ دعائیہ تقاریب میں ان ہلاک شدگان کے لواحقین اور احباب کے علاوہ سابق امریکی صدر بل کلنٹن، ترک اور سرب وزرائے اعظم سمیت اہم عالمی شخصیات بھی شریک ہو رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اس موقع پر ان 100 ہلاک شدگان کی دوبارہ تدفین بھی کی جائیگی جن کی شناخت ڈی این اے کے تجزیے کے بعد حال ہی میں ممکن ہوئی ہے۔ جمعہ کو سربرینیکا کے مقتولین کی یاد میں دس ہزار افراد نے سالانہ امن مارچ میں حصہ لیا۔ اس راستے پر سفر کیا جہاں سے قصبے پر بوسنیائی سربوں کے قبضے کے بعد علاقے کے مردوں اور بچوں نے نکلنے کی کوشش کی تھی۔ سربیا کے دارالحکومت بلغراد میں حکام نے قتلِ عام کی یاد میں تقاریب پر پابندی عائد کر دی ہے۔ بلغراد میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے کارکنوں نے سرب پارلیمنٹ کے باہر دعائیہ تقریب منعقد کرنے کا اعلان کیا تھا تاہم پولیس نے پارلیمنٹ کے اردگرد کسی بھی اجتماع پر پابندی لگا دی ہے۔ سربیا کے وزیرِ داخلہ نیبوسا ستیفانووچ نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ پورے ملک میں امن و امان برقرار رکھنے کے لیے کیا گیا ہے۔ خیال رہے کہ حال ہی میںروس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کی سربرینیکا میں قتل عام کو نسل کشی قرار دینے سے متعلق قرارداد کو ویٹو کیا ہے۔ اقوامِ متحدہ میں پیش کی جانے والی قرارداد سے سربیا ناراض تھا وہ ’نسل کشی‘ کے لفظ کے استعمال کی مخالفت کرتا آیا ہے۔ سربرینیکا کو 1990ء کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے خاتمے کے وقت اقوام متحدہ نے محفوظ علاقہ قرار دیا تھا تاہم 1995 میں چھ سے آٹھ جولائی کے درمیان بوسنیائی سرب افواج نے اس محفوظ علاقے کا محاصرہ کر لیا تھا جہاں پر ہزاروں بوسنیائی شہریوں نے پناہ لے رکھی تھی۔ ان ہزاروں نہتے شہریوں کی حفاظت ڈچ انفینٹری کے 600 اہلکار کر رہے تھے۔ بوسنیائی سرب فوج نے معمولی ہتھیاروں سے لیس ہالینڈ کے ان فوجیوں پر مشتمل اقوام متحدہ کی اس فوج سے علاقے کا کنٹرول چھین لیا تھا۔ اس کا کنٹرول حاصل کرنے کے بعد میں بوسنیائی سرب فوجیوں نے وہاں موجود آٹھ ہزار سے زیادہ مسلمان مردوں اور لڑکوں کو قتل کر دیا تھا۔ اس قتلِ عام پر ہیگ میں اقوامِ متحدہ کے ٹربیونل نے 14 افراد کو مجرم قرار دیا تھا۔

مزیدخبریں