کراچی میں گرمی تھی یا کچھ اور؟

گرمی کی شدت، لوڈ شیڈنگ کی شدت، پانی کی کمی کی شدت اور ہوا میں نمی کی شدت نے چند دنوں میں کراچی میں ایک ہزار تا پندرہ سو انسانی جانوں کو لقمہ اجل بنا ڈالا۔ ہمارے ہاں انسانی جانوں کے اس طرح ضائع ہونے پر عمومی طورپر کچھ نہیں ہوتا۔ صوبائی و مرکزی حکومتیں یا محکمے ایک دوسرے کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں۔ الزامات لگاتے ہیں، دو چار دن گزر جاتے ہیں بات آئی گئی ہو جاتی ہے۔ یا پھر ایسے سانحے کو تقدیر کا لکھا کہہ کر ٹال دیا جاتا ہے کبھی بھی ہم نے ایسے واقعات سے کوئی سبق سیکھا ہے اور نہ ہی آئندہ بچائو کی کوئی تدابیر اختیار کی ہیں۔ بہت ہوا تو تحقیقات کیلئے کمیٹی بٹھا دی گئی اور وہ ایسی بیٹھی کہ بس بیٹھ ہی گئی۔
کراچی میں گرمی سے مرنے والوں کو اگر تصور کیا جائے تو شاید ملک کے دوسرے حصوں میں بسنے والے نہ سمجھ پائیں کیونکہ گرمی یا لو سے بچنے کے لئے ہمارے ہاں صدیوں سے آزمودہ نسخے موجود ہیں جن کی روشنی میں کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں کو سروں پر کپڑا رکھنا چاہئے۔ گرمی سے بچنے کیلئے فضا میں رہیں اور پانی زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔ بظاہر یہ بڑا سادہ اور آسان نسخہ ہے لیکن اگر کسی نے کراچی جیسے گنجان آباد شہر میں سکونت اختیار نہ کی ہو یا مشاہدہ نہ کیا ہو تو اس کے لئے اس بات کا سمجھنا مشکل ہے۔ کراچی کے پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے والے سے کہا جائے کہ اس سے بچو تو وہ کیسے بچے گا؟ اور جب پنکھا نہ چلے تو تنگ و تاریک گھروں یا فلیٹوں میں مقید افراد کھلی فضا میں کہاں سے جائیں گے؟ اور جب نلکوں میں پانی کی بجائے ہوا پھر پھرائے اور بوتل کا پانی خریدنے کیلئے جیب اجازت نہ دے تو اسے کیسے کہا جائے کہ بھائی پانی کا استعمال زیادہ کرو۔ لہٰذا جس کے سر پڑے وہی مشکل کی شدت کا صحیح اندازہ لگا سکتا ہے۔
ویسے دیکھا جائے تو گرمی پانی کی کمی، لوڈشیڈنگ نے پاکستانیوں اور کراچی والوں کیلئے کوئی نئی بات نہ تھی کہ جس کے وہ عادی نہ تھے۔ دراصل ان مشکلات کو ہم پاکستانی اپنی عادت بنا کر قابو پاچکے ہیں۔ بقول غالب! ’’رنج سے خو گر ہوا انسان تو مٹ جاتا ہے رنج‘‘ یہی نہیں بلکہ ’’مشکلیں اتنی پڑی مجھ پر کہ آسان ہوگئیں‘‘ کے مصداق اوپر بیان کی گئی مشکلیں تو ہمارے لئے کھیل تماشہ ہیں اس سے ہم مرنے والے نہیں۔ تو پھر کراچی میں اتنے لوگ کیسے مر گئے؟ یہ سوال نیا بھی ہے اور غور طلب بھی۔اکیسویں صدی کی دوسری دہائی میں جبکہ سائنسی کمالات انتہائی حدوں کو چھونے لگے ہیں، کسی بھی امکان کو رد کرنا ممکن نہیں۔ عالمی حالات و واقعات کے تناظر میں پاکستان ایک اسلامی نظریاتی مملکت اور واحد ایٹمی طاقت کے طور پر اگر یہ خیال کرے کہ دیگر طاقتیں اس کے درپے نہیں ہونگی تو یہ غلط فہمی ہوگی۔ عالمی سطح پر ہمارے کھلم کھلا دشمن بھی موجود ہیں اور دوستوں کے روپ میں بھی دشمن ہیں لہٰذا ہمیں چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے بے شمار تجربے کئے جا رہے ہیں۔ آئندہ لڑائیاں محض روائتی اسلحہ کی نوک پر نہیں لڑی جائیں گی بلکہ اقتصادی جنگیں لڑی جائیں گی جو اس وقت جاری ہیں جس کا بنیادی مقصد ملکوں کو اقتصادی طور پر دست نگر بنائے رکھنا ہے۔ کیونکہ جٹکاسا فارمولا ہے کہ جس قوم کو دال روٹی کے لالے پڑے رہیں گے وہ جنگ و جدال (جہاد) کے لئے کیا تیار ہوگی۔ دوسری صورت جارحیت کی یہ نظر آرہی ہے کہ آئندہ وقت میں Attitude Control System کے تحت مخصوص علاقے، گائوں یا شہر کی آبادی کو سیٹیلائیٹ کی مدد سے Rays کے ذریعے نشانہ بنایا جائیگا اور یوں اس آبادی کے لوگوں کو جسمانی و ذہنی طور پر چست و چالاک، یا سست ولاغر، خوش مزاج یا دیوانہ پن، جوشیلے یا صلح کن یا انتہائی صورت میں بغیر خون خرابے کے ابدی نیند ملایا جاسکے گا۔کراچی کی گرمی کو کم کرنے کیلئے مصنوعی بارش کا اہتمام کرنے کی کوشش کی گئی کہ گزشتہ دنوں کراچی میں ایک اجلاس منعقد ہوا جس میں مصنوعی بارش کے پاکستانی ماہرین نے مشورہ دیا ہے کہ 2000 سے 4000 فٹ کی بلندی پر موجود بادلوں پر سوڈیم کلورائیڈ کا بذریعہ جہاز سپرے کیا جائے جس کے تین گھنٹے بعد بارش برس پڑے گی اور گرمی کا زور ٹوٹ جائے گا۔ یاد رہے کہ پاکستان میں مصنوعی بارش کا ایک کامیاب تجربہ 2000ء میں کیا گیا تھا جب تھر کے علاقے میں مصنوعی بارش برسائی گئی تھی۔ دنیا کے کئی ممالک میں بھی ایسے کامیاب تجربے کئے جاچکے ہیں۔ یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ سائنسی تحقیق کی بدولت اگر بادلوں کو برسنے پر مجبور کیا جاسکتا ہے تو انہیں بارش برسنے سے روکا بھی تو جاسکتا ہے۔ بہر حال یہ سوال کا ایک زاویہ ہے جس میں امکانات کے بے شمار دروازے کھلے ہیں۔ بحیثیت قوم اگر ہم نے ان امکانات پر نظر نہ رکھی، اپنے آپ کو سائنسی تحقیق و جستجو میں ممکن حد تک قابل نہ بنایا تو پھر شاید پچھتاوے کے سوا کچھ نہ بچے۔ کراچی میں اداروں کو ذمہ دار ٹہرانا اور آئندہ بہتری کے لئے منصوبہ بندی کرنا درست اور لازمی ہے مگر ساتھ ہی ساتھ حکومتی سطح پر اب یہ بھی ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ ہمارے ہاں اب تک زمینی و بحری سرحدوں کی حفاظت کے لئے تو بہترین عسکری قوت موجود ہے تاہم نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہم نے تاحال کوئی بندوبست نہیں کیا اور نہ ہی فضائی سرحدوں کی حفاظت کے لئے کوئی خاص اہتمام کیا ہے۔ فضائی سے میری مراد سیٹیلائیٹ کی دنیا ہے۔ ماحولیات کی دنیا ہے، Rays & Waves کی دنیا ہے۔ بری، بحری اور فضائی فوج کے ساتھ ساتھ اب ہمیں سائنسدانوں کی ’’فوج‘‘ بھی تیار کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں سولر، لیزر، اور تابکاری موجوں سے بچانے کے لئے ماہرین کی ’’فوج‘‘ کی ضرورت ہے۔ کیونکہ مستقبل میں جنگوں کی نوعیت مختلف ہوگی۔ لہٰذا فوج کے بھی روایتی تصور کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی تناظر میں ڈینگی مچھر وغیرہ یا کراچی میں گرمی سے ہونے والی اموات کو سرسری نہ لیا جائے بلکہ اس امکان پر ضرور غور کرنا چاہئے کہ آیا کراچی کا حالیہ واقع معمول کی گرمی کا نتیجہ ہے، یا کسی نے اپنے ماحولیاتی کنٹرول سسٹم کو آزمانے کے لئے تجریہ کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...