وقت جوں جوں گزر رہا ہے یہ احساس قوی تر ہو ہونے لگا ہے کہ اچھی مثبت سوچ لفظ فقرے اور رفاہ عام کبھی نہیں مرتا۔ جب انسان اپنی بساط میں ہوتا ہے‘ اپنی قوت و طاقت اور رتبے کے اثر و رسوخ کا گھمنڈ اسے مٹی کے ذروں کی حقیقی قدر اور طاقت کا ادراک ہی نہیں ہونے دیتا۔ زمین جو ہر طرح کی زمین کا دوام ہے۔ حلق کے نوالے سے لیکر کوکھ میں پناہ تک کا ظرف دھرتی ہی کا ہو سکتا ہے اور اگر کہیں گور کے بعد زندہ رہنے کی امنگ جاگ رہی ہے تو جان جائیے شعوری قوتیں آتے جاتے سانسوں کی محتاجی اور غلامی سے نجات کا ہنر سیکھ رہی ہیں یا سیکھ چکی ہیں!!! اس میں کوئی دو رائے ہو ہی نہیں سکتیں کہ ہم تک سچ اور حقیقی اقدار اپنے بزرگوں کی وساطت سے ہی پہنچتی ہیں۔ یہاں بزرگوں کی راست راہی شرط ہے! اور پھر ماں کی گود سے استاد کے سائبان تک کا راستہ روشنی میں دھندلے پن سے مبرا ہوتا ہے۔ بچہ معصومیت اوڑھے گھر سے نکلتا ہے اور پھر اولین درس گاہ سے آگے تک کے راستے معاشرتی ماحولیاتی اونچی نیچی پگڈنڈیوں سے ہوتے ہوئے کچھ نفوس کو اپنے ساتھ بہا لے جاتے ہیں اور کچھ اپنی ماورائی قوتوں سے ہواؤں کا رخ اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہی ہوتے ہیں جن کی پرتیں آنیوالے وقتوں میں زیادہ کھلتیں اور واضح ہوتی چلی جاتی ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کو آنے والا زمانہ کھوجتاہے۔ مجھے یقین ہے اس کھوج کی وجہ سچ‘ یقین اور ہنر ہی ہو سکتی ہے۔ مجھے اپنی کم علمی کا کلی احساس ہے لیکن مجھے اس پر فخر ہے کہ جس دھرتی نے مجھے پناہ دینی ہے وہ اعلیٰ ہے‘ میں نے جس کوکھ سے جنم لیا وہ ارفع تھی اور جن اساتذہ کا سائبان مجھ پر رہا ان پر مجھے فخر ہے۔ میرے اساتذہ میں جناب وارث میر ایسے شخص جن کے انتہائی واضح دو رخ میں نے اپنے ہوش و حواس میں دیکھے۔ جیسے علامہ اقبال نے مسجد قرطبہ میں دو رکعت نماز ادا کی تو قلندری ملی اسی طرح کچھ دوسرے انداز میں جب جناب وارث میر برطانیہ اعلیٰ تعلیم کی غرض سے گئے تو ان کی سوچوں سے مصنوعی عظمتوں اور زور زبردستی کے ملمعوں کے پردے چاک ہو چکے تھے روشنیوں کے ادراک نے سچائیوں کی راہگزر واضح کر دی تھی اور انکے اندر خیالات کی وارفتگی‘ اظہار کی مضبوطی و جرات اور سب سے بڑھ کر سچ کو سچ کہنے اور جھوٹ کے خلاف چپ توڑنے کی بے باکانہ ادا عود آئی۔ ظلم کو ظلم تسلیم کرنا‘ چاہے وہ کتنا ہی عزیز از جان کیوں نہ کر رہا ہو اور پھر اس کیخلاف بغاوت کا علم اٹھانا کم سے کم پاکستانی آمریت کے زمانوں میں ہمیشہ جان جوکھوں کا عمل رہا ہے۔ افواج پاکستان سے اٹوٹ محبت ہم پاکستانیوں کو مائیں پالنے ہی میں سیکھا دیتی ہیں لیکن شعوری دہلیز پار کرتے ہی آشکار ہوتا ہے کہ ووٹ کی طاقت سے حاصل کئے گئے ملک پر فوجی مارشل لاز ہی نے قیامتیں ڈھائیں۔ جبر و ظلم کے حوالے سے ضیاء الحق جیسے استعارے سے خدا آئندہ اس ملک کو محفوظ رکھے لیکن وارث میر جیسے نڈر لکھنے والے کے لئے بھی ضیاء الحق جیسے جابر آمر کیخلاف جمہوری قوتوں کا ساتھ دینا اور اپنے قلم کی نوک کو نشتر بنا کے سماجی‘ معاشرتی‘ سیاسی اور قومی ناسوروں کو کاٹ کر تن سے الگ کر دینے کا نعرہ مستانہ لگانا کوئی آسان کام نہیں تھا۔ وارث میر کا یہ روپ جناب نثار عثمانی اور حسین نقی جیسے باغیوں کیلئے بھی لائق ستائش بنا کون ہم عصر ہو گا جنہوں نے اس عملی تبدیلی کو محسوس نہ کیا ہو اور جرات اظہار پر داد نہ دی ہو۔ کبھی کبھی تو مورچوں سے آگے جا کر وار کرنے پر ہمعصر ششدر بھی ہو جائے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب جناب وارث میر نے جبر کیخلاف چپ نہ رہنے کی قسم کھائی تو دوسری جانب معاشرے میں رجعت پسند خود ساختہ اسلامی قوانین کے شکنجوں میں جکڑ کر عورت کو آدھا بنا دینے کیخلاف پوری قوت سے آواز اٹھائی۔ یقیناً یہ ان پر قرض بھی تھا جو میرے استاد محترم نے ’’کیا عورت آدھی ہے‘‘ لکھ کر اتار دیا۔ انہوں نے پاکستانی عورت پر غیر اسلامی زیادتیوں اور ناانصافیوں کو اسلام کی آڑ دینے کی نفی کرکے بڑے بڑے قانون دانوں کیلئے آسانیاں پیدا کر دیں یہاں عاصمہ جہانگیر جیسی بے باک قانون دان کا اعتراف یقیناً قارئین کیلئے باعث طمانیت ہو گا۔ کہتی ہیں ’’اسلام میں قصاص و دیت‘ گواہی اور پردہ کے حوالے سے عورت کی حیثیت و مرتبہ کیا ہے؟ ان ایشوز کو صحیح طور پر آج مجھے یہ اقرار کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ جس زمانے میں وارث میر پاکستان میں بیٹھے فوجی آمریت کے خلاف جمہوری قوتوں کا ساتھ اپنے قلم سے دے رہے تھے ان موسموں میں بے شمار ترقی پسند روشن خیال اس کے ظلم و تشدد‘ سنگلاخ اندھیر کوٹھریوں اور کوڑوں کی شقاوت سے کسی نہ کسی طرح بچ نکل کر برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا اور جرمنی پناہ لینے پر مجبور ہوئے تھے۔ میں آج دوبارہ جب جناب وارث میر کی اس دور میں لکھی تحریریں پڑھتی ہوں تو جھرجھری سی آجاتی ہے کہ انتہائی جبر کے زمانے میں انکی روشن خیالی اور زندہ سوچ نے انہیں کس قدر نڈر بنا دیا تھا۔ میرے ہاتھ میں ’’وارث میر کہانی‘‘ جو انکے ہونہار سپوت عامر میر نے مرتب کی ہے۔ جانے مجھے کس کس زمانے میں لے گئی ہے۔ انکے ہم عصروں‘ منجھے سیاستدانوں‘ شاعروں ادیبوں ماہر قانون دانوں کا اعتراف ایک خراج محسوس ہوتا ہے انہی بڑے لوگوں کی صف میں مجھ ادنیٰ کا تب بھی یہی کہنا کہ ’’سر آپ نے جانے میں بہت جلدی کی۔‘‘ میں آج بھی یہی کہتی ہوں سر! لیکن آج ایک بات اور بھی بہت یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ جسم غائب ہونے سے ہر کوئی مر نہیں جاتا۔ کچھ سوچیں‘ خیالات‘ نظریات اور فلاح عام ہمیشہ زندہ رہتی ہے۔ انسانوں کی آتی جاتی سانسوں کیلئے آلودگیوں کے پردے چاک کرنا گویا اپنی ہی زندگی کا دوام ہے اور یوں سر جی!! آپ آج بھی زندہ ہیں!!