لاکھوں، یتیموں، بیواﺅں، لاوارثوں، معصوم بے گناہ بچوں کا ساتھی اور غموں کو خوشیوں میں بدلنے والا ”خادم پاکستان“ عوامی لیڈر عبدالستار ایدھی جنت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو چکا ہے۔ قوم نے اپنے آنسوﺅں، دعاﺅں، آہوں کا اعزاز دے کر ایدھی کو رخصت کیا۔ ایدھی صاحب کو کسی بڑے حکومتی اعزاز کی ضرورت نہ تھی ان کا اصل اعزاز و اکرام دربار خدا اور رسول کے سامنے سرخرو ہو کر پیش ہونا ہے وہ خدائی مہمان اور اعلیٰ جنتی پروٹوکول کے حقدار ہیں انشاءاللہ۔ بشری کمزوریاں ہر ایک میں ہو سکتی ہیں لیکن اتنے عظیم غریب پروری والے انسان کو اللہ تعالیٰ کیسے سخت حساب میں لائیں گے جسے کروڑوں (60سال کے عرصہ میں) بے کسوں، دکھ کے ماروں، مسکینوں، بے آسرا لوگوں کی گواہی اور دعائے مغفرت میسر ہو۔
”خادم پاکستان“ ایدھی صاحب نے ایک اخبار فروش، ایمبولنس چلانے والے عام سے انسان کی ابتدائی زندگی بسر کی لیکن ان کا مشن اور مشن کی کامیابی میں جان، مال، وقت (جوانی سے) لگانے کا سچا جذبہ ایسا تھا کہ قطرہ قطرہ بن کر وہ بڑے دریا کا روپ دھارتا چلا گیا۔ جب لگن، اخلاص، سچائی، نمود و نمائش سے بالاتر ہونے کی اعلیٰ صفات اور عمل ایک جیسا ہو جائے تو چند سالوں کی عظیم قربانیوں سے ایک ایسا عظیم فلاحی منصوبہ مکمل کیا اور ”رول ماڈل“ کے طور پر چلا کر دکھایا جا سکتا ہے جسے عیسائی، ہندو، سکھ، پارسی، خدا کو نہ ماننے والے، بدھ مت دیگر مذاہب کے عوام، حکمران اور ممالک بھی تسلیم کرکے اعزازات سے نوازیں جیسا ایدھی صاحب کے ساتھ کیا گیا۔
ایدھی صاحب کی زندگی رسول کی سنت سے مشابہت رکھتی تھی جیسے ہمارے نبی ے ہمیشہ سادہ ترین، دنیاوی نمود و نمائش، آسائشوں کے بغیر، ہر غریب بے بس، بے کس بے سہارا مجبور، دکھ قرض دار، مظلوم، بلا مذہب اخلاقیات کا عملی مظاہرہ اور انسانیت (کافروں سمیت) کی خدمت جیسے اسوہ رسول کا راستہ اپنایا وہ حقوق العباد (ہم تو بڑے حکم قریبی رشتہ داروں کے حقوق بھی ادا نہیں کرتے اکثر) کی اسلامی تعلیمات کا عظیم عملی نمونہ ہے۔ ایدھی صاحب نے اپنی تمام جوانی کی طاقتیں انسانیت کی بھلائی کے لئے صرف کر ڈالیں اور کروڑوں عوام کے لیڈر بنے جو دل پر حکمرانی کرتے ہیں نہ پروٹوکول نہ اعلیٰ حکام سے دوستی نہ آنا جانا نہ ستائش کی تمنا نہ حکمرانوں کے ”درباروں“ کے کھانوں پر نظر۔ ایدھی صاحب نے اپنی عمر کے آخری سال معذوروں کی کرسی ”وہیل چیئر“ پر بیٹھ کر بھی جاری رکھے۔ وہ چار امراض کا شکار تھے لیکن عزم و حوصلہ ہمالیہ سے بھی بلند! فلاں ہسپتال کا منصوبہ بنانا ہے۔ وہاں ایمبولنس سروس کو پھیلاﺅ۔ وہاں یتیموں، معذوروں کا ہسپتال بناﺅ، وہاں غریب لڑکیوں کی شادی کرانے کا انتظام کرو، لاوارث لاشوں اور سڑکوں پر ملنے والے بچوں کے انتظامات کا کیا کر رہے ہو؟ یہ ان کی آخری دم تک جستجو رہی۔ بڑھاپے کے آخری پانچ سال بھی اپنے ”مشن“ کے بارے میں متفکر رہتے! 88سال کی عمر میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ایدھی صاحب کے مشن کو تو کروڑوں لوگ جاری رکھنے میں اپنا کردار کریں گے لیکن اصل کام ارب پتی تاجروں، صنعتکاروں اور سب سے بڑھ کر حکمرانوں کا ہے۔ اصل کرنے کا کام یہ ہے کہ ملک کے تمام وزرائے اعلیٰ اور آزاد کشمیر کے وزیراعظم اپنے اپنے علاقوں میں ”ایدھی مراکز“ کے لئے زمین اور فنڈز فراہم کریں۔ پہلی ترجیح پسماندہ ترین اور صحت کی سہولتوں سے محروم تحصیلوں کو دی جائے جہاں بچہ پیدا کرنے کے وارڈ اور سرجن ڈاکٹر موجود ہوں کوئی صحت مرکز عوام کے لئے 50 میل سے زائد فاصلے پر واقع نہیں ہونا چاہئے۔ یہ بھی زیادہ ہے لیکن 1 گھنٹہ سے کم کے سفر کو ”پالیسی بنایا جائے“ آکسیجن اور دل کی بنیادی علاج کی مشینیں، معذوروں کا وارڈ اور عام میڈیسن کا شعبہ بھی بنایا جائے تاکہ بڑے ہسپتالوں سے بے پناہ دباﺅ ختم ہو اور عوام بے پناہ اخراجات، پریشانیوں اور خرچہ سے بھی بچ جائیں۔ یہ ”خادم پاکستان“ ایدھی مراکز کم سے کم پسماندہ علاقوں میں 20تا 20 ہر صوبہ میں قائم کئے جائیں خصوصاً ایسے علاقوں میں جہاں ریگستان، سواری یا سڑکوں، پہاڑوں کی بڑی ”مصیبتیں“ ہیں.... اور پاکستان کے 25 ارب پتی گروپ اپنے طور پر ”ایدھی، ہاشو مرکز“ ایدھی ریاض مرکز“ ”ایدھی داﺅد مرکز“ ”ایدھی چودھری مرکز“ ”ایدھی عمران مراکز“ ”ایدھی ہمایوں مرکز“ ”ایدھی زرداری مرکز“ ” ایدھی Nestle“ مرکز وغیرہ وغیرہ۔ ارب پتی کم از کم پانچ پانچ قائم کریں۔ وزیراعظم میاں نواز شریف بھی وفاقی فنڈز سے کم از کم پانچ ہسپتال (اگلے دو سال میں) چار صوبوں اور گلگت بلتستان میں قائم کرنے کا اعلان کریں۔ صرف ایدھی مرکز، ہیڈ کوارٹر کو (10کروڑ یا زیادہ متوقع) اعلان وزیراعظم کے لئے کافی نہیں ہو گا نہ ان کے نام پر یادگاری ٹکٹ کا اجرا وغیرہ.... یہ ایدھی صاحب کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھنے کا واحد طریقہ ہے جو ارب پتی لوگوں تک پہنچا دیا ہے۔