امریکی کانگریس کی سب کمیٹی برائے دہشتگردی کے چیئرمین ٹیڈپو نے کہا ہے کہ کانگریس ایک دو روز میں ایک مباحثے کا اہتمام کر رہی ہے جس کا عنوان ہے ’’کیا پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا دوست ہے یا دشمن‘‘۔ اس مباحثے کے بعد امریکی کانگریس اوباما انتظامیہ سے پاکستان کے بارے نئی پالیسی مرتب کرنے کی سفارش کریگی۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان دہشتگردوں کیخلاف ویسی کارروائیاں نہیں کر رہا جس کی امریکہ اور دنیا کے جمہوری ممالک توقع رکھتے ہیں۔ دوسری طرف امریکی کانگریس کے رکن میٹ سلیمون نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ پاکستان نے اب تک دوہرا معیار قائم کر رکھا ہے لہٰذا اب وقت آ گیا ہے کہ امریکہ پاکستان کو دی جانیوالی امداد پر چیک اینڈ بیلنس قائم رکھے۔
مباحثے سے پہلے کانگریس ارکان نے پاکستان کیخلاف زہر اگلنا شروع کردیا ہے۔ دہشتگردی کیخلاف جنگ میں پاکستان کا انفراسٹرکچر کی صورت میں ایک سو ارب ڈالر کے لگ بھگ نقصان ہوا ہے۔ یہ نقصان پورا کرنا امریکہ کا فرض ہے مگر وہ اس نقصان کی تلافی نہیں کر رہا اور تلافی کے نام پر جو رقم اب تک پاکستان کے حوالے کی گئی وہ نقصان کا عشر عشیر بھی نہیں ہے۔ پاکستان نے جانی قربانی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی مجموعی تعداد میں ہلاکتوں سے کئی گنا زیادہ کر دی ہے۔ اس کا تو کوئی مداوا ہو ہی نہیں سکتا۔ کتنی شرم کی بات ہے کہ جس امریکہ کی خاطر پاکستان نے یہ سب کچھ کیا ، وہ امریکہ اب اس سوال کا جواب تلاش کر رہا ہے کہ پاکستان دہشتگردی کیخلاف جنگ میں امریکہ کا دوست ہے یا دشمن ہے۔ یہ امریکہ کی طوطا چشمی، پاکستان کی قربانیوں کی توہین اور ایسی باتیں کرنیوالوں کی پاکستان دشمنی ہے۔ امریکی کانگرس کے اس قبیل کے ارکان نے پاکستان کی امداد پر کٹوتی لگوا دی۔ ایف سولہ دینے سے انکار کر دیا پھر بھی پاکستان پر چیک اینڈ بیلنس کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ پاکستان ایک آزاد اور خود مختار ملک ہے۔ امریکہ کو پاکستان پر اعتماد نہیں تو وہ ایسے کام بھارت سے لے لے جو ان ارکان کے بقول پاکستان نہیں کر رہا۔ بھارت سے اسکی زیادہ ہی قربت ہے تو وہ اپنے مفادات کے تحفظ کیلئے اسے آزما کر بھی دیکھ لے۔
امریکی ارکان کانگریس کی پاکستان پر بداعتمادی
Jul 12, 2016