مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کی انتہائ‘ 25 کشمیریوںکی شہادتیں اور نوازشریف کا بھارت سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کا تقاضا
وزیراعظم محمد نوازشریف نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں بھارتی افواج اور پیراملٹری فورسز کے ہاتھوں کشمیری رہنماء برہان وانی اور متعدد دیگر بے گناہ شہریوں کی شہادت پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا ہے کہ طاقت کا اندھا استعمال کشمیریوں کو انکے حق خودارادیت سے محروم نہیں کر سکتا۔ گزشتہ روز جاری کئے گئے اپنے بیان میں انہوں نے کہا کہ بھارتی حکومت انسانی حقوق سے متعلق اپنی ذمہ داریاں پوری کرے اور کشمیریوں کے حق خودارادیت کے حوالے سے یواین سلامتی کونسل کی قراردادوں کے تحت کئے گئے اپنے وعدوں کی بھی تکمیل کرے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی فوج کے ہاتھوں کشمیریوں کی شہادتوں اور حریت رہنمائوں کی مسلسل نظربندی پر ہمیں سخت تشویش ہے۔ ایسے ظالمانہ اقدامات بہادر کشمیری عوام کو حق خودارادیت کے مطالبے سے نہیں ہٹا سکتے کیونکہ یہ حق انہیں اقوام متحدہ نے دیا ہے۔ دوسری جانب ترجمان دفتر خارجہ نے پرامن ذرائع سے مسئلہ کشمیر کے حل کے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ غیرجانبدارانہ استصواب ہی مسئلہ کشمیر کا واحد حل ہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیریوں کو یواین قراردادوں کے مطابق استصواب کا حق ملنا چاہیے‘ بھارت سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل یقینی بنائے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بند کرے۔ وفاقی وزیر پرویز رشید نے کہا کہ بھارتی فوج نہتے کشمیریوں پر ظلم ڈھا رہی ہے اور پوری دنیا مقبوضہ کشمیر میں یہ سب کچھ ہوتا دیکھ کر بھی خاموش ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں 20 افراد کو شہید اور 300 کو زخمی کیا گیا ہے‘ ہر شخص دیکھ رہا ہے‘ عالمی ضمیر کب بیدار ہوگا۔
مقبوضہ کشمیر میں حق خودارادیت کیلئے کشمیری عوام کی پرامن اور صبرآزما تحریک کو دبانے کیلئے ریاستی جبر کی انتہاء کرتے ہوئے نہتے کشمیری عوام پر بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز کے مظالم کا سلسلہ گزشتہ 67 برس سے جاری ہے جس میں کشمیری عوام اب تک عملاً لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے چکے ہیں اور اپنے گھر بار اور کاروبار لٹا چکے ہیں مگر انہوں نے ریاستی جبر کو صبروتحمل سے برداشت کرتے ہوئے اور بھارتی حکمرانوں کی کسی بھی ترغیب و تحریص کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے جو اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اپنے مستقبل کے تعین کیلئے پرعزم کشمیریوں کو کسی بھی ریاستی ہتھکنڈے سے دبایا نہیں جا سکتا جبکہ انکی طویل تاریخی جدوجہد نے انسانی حقوق کے عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کے دل بھی موم کر دیئے ہیں جو لندن اور فرانس میں کشمیریوں کے ملین مارچ میں بھی شریک ہوئے اور وہ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے دوسرے عالمی اداروں تک بھی کشمیری عوام کی آواز پہنچا رہے ہیں۔ اسی تناظر میں گزشتہ دو ہفتے سے مقبوضہ کشمیر میں کشمیری عوام پر بھارتی فوجوں کے مظالم کا سلسلہ جاری ہے جس کے دوران بھارتی جبروتشدد سے کشمیری حریت رہنما برہان وانی کی شہادت ہوئی تو اس پر کشمیری عوام کے جذبات بھی بے قابو ہوگئے جنہوں نے بھارتی فوجوں کی مزاحمت اور انکے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی شروع کر دیا مگر بجائے اسکے کہ مقبوضہ کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت اور بھارتی حکمران معاملہ فہمی اور صلح جوئی سے کام لیتے‘ انہوں نے کشمیری عوام پر بھارتی افواج کے مظالم کا سلسلہ مزید تیز کردیا اور ان پر سیدھے فائر کئے جانے لگے‘ نتیجتاً گزشتہ چار روز کے دوران اب تک 25 کشمیری باشندے بھارتی فوجوں کے مظالم کی بھینٹ چڑھ کر اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ بھارتی فوجوں کی بے دریغ فائرنگ سے تین سو سے زائد نہتے کشمیری عوام شدید زخمی ہوئے ہیں۔
کشمیری عوام پر بھارتی ظلم و جبر میں شدت مودی سرکار کی ہذیانی کیفیت کی غمازی کرتی ہے کیونکہ بھارت نے ہر صورت کشمیر پر اپنا تسلط مستقل بنانے اور پاکستان کے موقف کو جھٹلانے کی ٹھان رکھی ہے جس کے تحت مقبوضہ کشمیر میں کشمیری مسلم عوام کی اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے مختلف ہتھکنڈے بروئے کار لائے جارہے ہیں۔ اس پر پاکستان کو بجا طور پر تشویش ہے کیونکہ کشمیر کے بغیر پاکستان کی تکمیل ہی نہیں ہوتی۔ کشمیر کا تقسیم ہند کے ایجنڈا کے تحت جلد یا بدیر پاکستان کے ساتھ الحاق ہونا ہے جس کیلئے کشمیریوں نے پہلے ہی خود کو تیار رکھا ہوا ہے۔ اس صورتحال میں بھارتی افواج اور پیراملٹری فورسز کشمیریوں کا گلہ دبا کر انکی آواز خاموش کرانے کی کوشش کرتی ہیں تو طاقت کے ایسے بہیمانہ استعمال سے کشمیری عوام کے جذبے ماند نہیں کئے جاسکتے۔ وہ پہلے بھی تاریخی قربانیاں دے چکے ہیں اور اپنے حق خوداختیاری کی منزل کے حصول کی خاطر وہ بھارتی افواج کی بندوقوں اور نیزوں کے سائے میں بھی اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے اور عالمی ضمیر جھنجوڑتے رہیں گے۔
مقبوضہ کشمیر کی موجودہ صورتحال یقیناً ہمارے حکمرانوں کے ضمیر بھی جھنجوڑ رہی ہے جنہوں نے کشمیری عوام کی پرعزم جدوجہد کا اب تک محض زبانی جمع خرچ کے تحت ہی ساتھ دیا ہے اور عملاً انکی توجہ بھارت کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے اور اسکے ساتھ تجارت اور دوستی کو فروغ دینے کی جانب ہی مبذول رہی ہے۔ اس وقت جبکہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجوں کی جانب سے کشمیری عوام پر بربریت کا سلسلہ تیز تر ہورہا ہے‘ ہمارے حکمرانوں کو دوٹوک موقف کے ساتھ کشمیری عوام کے ساتھ کھڑا ہو کر نہ صرف انکے حوصلے مضبوط کرنے چاہئیں بلکہ عالمی قیادتوں اور حقوق انسانی کے عالمی اداروں کو بھی یہ ٹھوس پیغام دینا چاہیے کہ بھارت کے ہاتھوں مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کے بغیر علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کی کسی صورت ضمانت نہیں دی جا سکتی اس لئے عالمی اور علاقائی سلامتی مقصود ہے تو پھر بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور نہتے کشمیری عوام پر اسکے ظلم و جبر کا سخت نوٹس لے کر اسے نکیل ڈالنا ہوگی‘ بصورت دیگر بھارتی جنونیت دنیا کی تباہی کی نوبت لاسکتی ہے۔ اس حوالے سے مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور دفتر خارجہ نے بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پاکستانی قوم اور کشمیری عوام کی امنگوں کی ترجمانی کرتے ہوئے دوٹوک موقف اختیار کر رکھا ہے جس کے تحت بھارتی ہٹ دھرمی پر عالمی ضمیر جھنجوڑنے کی کوششیں بھی بروئے کار لائی جارہی ہیں اور ہماری بہتر حکمت عملی اور بھرپور سفارتی کوششوں کے نتیجہ میں ہی بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کیلئے امریکی سرپرستی کے باوجود ہزیمت اٹھانا پڑی ہے۔ اب اس ٹمپو میں کوئی کمی نہیں آنے دینی چاہیے کیونکہ کشمیریوں کی جدوجہد اب کامیابی سے ہمکنار ہونے کے قریب ہے جس کے بعد کشمیریوں نے بہرصورت اپنے مستقبل کا خود تعین کرنا ہے۔ اگر وہ ہمارے حکمرانوں کی گومگو والی پالیسی سے مایوس ہونگے تو پھر کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا خواب ادھورا ہی رہے گا۔ اس تناظر میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی ملک واپس آکر بھارتی مظالم کا نشانہ بننے والے کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور انکے حق خودارادیت کی حمایت کرکے انہیں اور بیرونی دنیا میں اپنے حقوق کیلئے آواز اٹھانے والے کشمیری قائدین کو مثبت پیغام دیا ہے تاہم یہ ماضی جیسا محض رسمی بیان ہی ثابت نہیں ہونا چاہیے بلکہ اب قومی خارجہ پالیسی میں بھارت کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں پاکستان کا دوٹوک موقف نظر بھی آنا چاہیے۔ اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری وزیراعظم میاں نوازشریف کی اپنے ہم منصب بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ دوستی کو کشمیر کاز کو نقصان پہنچانے سے تعبیر کرتے ہیں تو اسے محض ایک بچے کی سیاست سمجھ کر اس پر حکومتی ترجمانوں کی جانب سے مضحکہ خیز ردعمل کا اظہار نہیں کیا جانا چاہیے بلکہ حکومتی اکابرین کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ بھارت کی اعلانیہ دشمنی کے جواب میں ہماری دوستی کی یکطرفہ خواہش پر کہیں دنیا کو ہماری کمزوری کا تاثر تو نہیں مل رہا۔ کشمیری ہونے کے ناطے وزیراعظم میاں نوازشریف کا تو کشمیر پر موقف اور بھی ٹھوس اور مضبوط ہونا چاہیے‘ چہ جائیکہ نواز‘ مودی دوستی ہمارے کشمیر کاز کو غارت کرنے کا باعث بنے۔ کیا ہی بہتر ہو کہ حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں سمیت ہماری تمام قومی سیاسی قیادتیں ملک کے بہترین مفاد میں مسئلہ کشمیر پر ایک ہی موقف اختیار کرلیں اور باہم مل کر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کریں۔ کم از کم کشمیر کاز پر کسی مفاہمت کے تو ہم ہرگز متحمل نہیں ہو سکتے۔ بزرگ کشمیری لیڈر سیدعلی گیلانی اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ کشمیری عوام آج پاکستان اور دوسرے مسلم ممالک کی جانب دیکھ رہے ہیں تو ہمارے حکمرانوں کو پاکستان سے وابستہ کشمیری عوام کی یہ امید ٹوٹنے نہیں دینی چاہیے۔