کرپشن کا فساد ہمارے وطن عزیز میں یوں تو آزادی کے فوراً بعد ترقی پذیر ہوگیا تھا۔ بدقسمتی سے وقت گزرنے کیساتھ ساتھ اس شعبے میں ترقی کاگراف تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ مجموعی طور پر پاکستان168 ممالک میں50کرپٹ ترین ممالک میں شامل ہے۔ سارک ممالک میں پاکستان واحد ملک ہے جس نے2014ء کے مقابلے میں2015 میں کرپشن میں زیادہ ترقی کی ہے۔ سری لنکا، چین، ایتھوپیا اور نائیجریا جیسے ممالک کرپشن کے حوالے سے بھی بدترین سطح پر ہے۔ نیب کے سابق چیئرمین فصیح بخاری کیمطابق پاکستان میں روزانہ 12ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ اس طرح سے اگر ملک میں ہونیوالی کرپشن کا حساب لگایاجائے تو ہمارے ہاں سرکاری ادارے اور حکمران سالانہ 25 کھرب55 ارب کی کرپشن کر رہے ہیں (ڈان1دسمبر2012)۔ ایک مٹھی بھر اشرافیہ نے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ کر رکھاہے دولت مندوں کی دولت میں اور عام آدمی کی غربت میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ آج ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی خط افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔ خط افلاس کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نیچے بنیادی انسانی ضروریات کی فراہمی ناممکن ہو جاتی ہے۔ ملک کے اسی فیصد وسائل پر دس فیصد کا قبضہ ہے جبکہ نوے فیصد آبادی صرف 20فیصد وسائل تک رسائی پا سکتی ہے۔ ملک پاکستان میں یہ کرپشن کی ہم گیری ارباب اقتدار کا عقیدہ توحید و آخرت سے محرومی کا شاخسانہ ہے کہ ملک کے تمام ادارے کرپشن کی دلدل میں دھنستے جا رہے ہیں اور عام آدمی اپنی زندگی سے بیزارخاندانوں سمیت خودکشیوں پر مجبور ہیں۔
آڈیٹر جنرل پاکستان کی سال2013-14 کے آڈٹ رپورٹ میں پاور سیکٹر میں واپڈا اور اس کی اُن دوسری کمپنیوں میں جو وزارت پانی وبجلی کے تحت کام کر رہی ہیں۔980 بلین روپے کی بے قاعدگیاں، غبن اور خرد برد سامنے آئی ہے۔ یہ رقم سال 2015-16 کے4 ٹریلین روپے کے بجٹ کے تقریباً ایک چوتھائی کے برابر ہے۔گزشتہ پانچ سالوں میں وفاقی حکومت نے توانائی کے شعبے کو تقریباً 2 ٹریلین روپے دیے ہیں۔ صارفین کے ٹیرف (Tariff) نرخ نامے میں جو 200 فیصد اضافہ کیاگیا وہ اسکے علاوہ ہے۔ آڈیٹرجنرل نے4.2 ٹریلین روپے کی اُن رقوم پر اعتراضات لگائے ہیں جوگذشتہ کئی سالوں سے بغیر حساب کتاب کے بقایا پڑے ہیں۔ یہ آڈٹ414 بلین روپے کے اخراجات اور2013-14کے مالی سال کی898 بلین آمدن سے متعلق ہے۔ آئین کی دفعہ 171کے تحت آڈیٹر جنرل کو یہ اختیار ہے کہ وہ صدرکو رپورٹ پیش کرے اور انہیں معاملات کی تحقیقات کا حکم صادرکرنے کیلئے کہے۔
اے بی پی کی رپورٹ کے مطابق ٹیلی کام کمپنیوں میں89.267 ارب کے خلاف قواعد اخراجات کئے گئے۔ اسی طرح پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی نے دومالی سالوں 2012-14 میں اور وزارت آئی ٹی نے7.049 ملین روپے کا انکم ٹیکس بھی ادا نہیں کیا۔ اسکے علاوہ پی ٹی اے نے یونیورسل سروس فنڈ کے اکائونٹ سے غیر قانونی طور پر765 ملین روپے نکلوائے۔ پی ٹی اے نے پی ٹی سی ایل کو تھری جی اور ایوو سروس کی لامحدود نقل وحرکت کی غیر قانونی اجازت دیکر بھی قومی خزانے کو51.1 ارب روپے کا نقصان پہنچایا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ پی ٹی اے نے ریڈیو فریکوئنسی سپیکٹرم غیر قانونی طور پر استعمال کرنے والوں سے10ملین روپے کا جرمانہ وصول نہیں کیا۔ رپورٹ کے مطابق نیشنل ریڈیو ٹیلی کمیونی کیشن کارپوریشن کے سامان پر جنرل سیلز ٹیکس بھی کم ادا کیا گیا جس سے 2.909 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ اسی طرح 89.119 ملین روپے کے سالانہ ریگولیٹری واجبات بھی وصول کیے گئے۔ اس کے علاوہ موبائل آپریٹرزکو جائز فوائد دینے سے پی ٹی اے کو ریونیوکی مد میں 374.17 ملین کا نقصان ہوا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پیپرا رولز 2004ء مالیاتی سروسز رولز اور کنٹریکٹ کے انتظامات کی خلاف ورزیوں کی وجہ سے وزارت آئی ٹی کو14.736ارب کا نقصان ہوا۔ زائد الائونسز، مالی فوائد بونس اورمراعات کی مد میں بغیر اجازت اور بے قاعدہ ادائیگیوں سے وزارت آئی ٹی کو91.58 ملین کا نقصان ہوا۔ سپیشل کمیونی کیشن آرگنائزیشن نے مالی سال2013-14ء کے دوران متعین بجٹ سے غیر قانونی طور پر106.65ملین کے زائد اخراجات کئے۔ دو ریٹائرڈ جرنیلوں: میجرجنرل (ر) خالد ظہیر اختر اور لیفٹیننٹ جنرل (ر) محمد افضل مظفر نے غیر قانونی طور پر4.3 بلین روپے کی سرمایہ کاری سٹاک ایکسچینج میں کی تھی جس کی وجہ سے ادارے کو1.8 بلین روپے کا نقصان ہوا۔ جولائی 2009ء سے جون2014ء تک پانچ سالوں میں 559 ملین روپے کی کرپشن کے 38کیس سامنے آئے ہیں جوکہ پولیس، نیب اورFIA کے پاس رجسٹرڈ ہیں۔2007ء میں جنرل مشرف دور کے اختتام پر پی آئی اے کا خسارہ 30 ارب روپے تھا۔ 9 برسوں میں یہ خسارہ200 ارب روپے تک پہنچ گیا۔کہا جاتا ہے کہ پی آئی اے ملازمین پی آئی اے کی تباہی کی وجہ ہیں توسوال اٹھتا ہے کہ بوئنگِ طیاروں کے سکینڈل میں کون ملوث تھے؟ اقتدار میں آتے ہی نوازشریف نے کتنے طیارے لیز پر لیے اور کن شرائط پر؟ 2007ء میں سب سے زیادہ منافع بخش ادارہ پی ٹی سی ایل ایک غیر ملکی کمپنی اتصالات کو بیچ دیا گیا۔ تاحال (9سال گزرنے کے بعد بھی) اتصالات نے 800 ملین ڈالر پاکستان کو ادا نہیں کیے۔ نیب کا قیام پندرہ سال قبل16نومبر 1999کو ہوا، اس کا صدر دفتر اسلام آباد میں ہے۔ نیب کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 15سال کے درمیان261 ارب روپے کی قومی دولت واپس دلائی ہے۔ اسی طرح موجودہ چیئرمین کا کہنا ہے کہ ان کی ایک سالہ مدت کے دوران میں چار ارب روپے سے زائد کی رقم کی ریکوری کی گئی ہے جو اس سے پچھلے سال کے مقابلے میں دوگنا ہے۔ حال ہی میں قومی احتساب ادارے نے7 ارب کے مضاربہ میگا کرپشن کیس میں GroupElixerکے خلاف کارروائی کرتے ہوئے 22 مجرمان کوگرفتارکر لیا ہے۔ پاکستان میں احتساب کے قومی ادارے (نیب) نے اربوں روپے کی مبینہ کرپشن کے ڈیڑھ سو بڑے مقدمات کی رپورٹ ملکی سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے۔
نیب کے مطابق150میں سے71 مقدمات کی انکوائری،41 تحقیقات کے مرحلے میں ہیں جبکہ38 میں تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس احتساب عدالتوں کو بھجوا دیے گئے ہیں۔ ’’ایک سو پچاس میگا کرپشن کیسز‘‘ نامی اس رپورٹ میں نیب نے بدعنوانی کے مقدمات کو تین درجہ بندی میں تقسیم کیا ہے جن میں مالیاتی بدعنوانی، اراضی اسکینڈل اور اختیارات کا ناجائز استعمال ہیں۔ قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نیب کی رپوٹ اصل میں خود اس ادارے کیخلاف بھی ایک چارج شیٹ ہے کہ کس طرح احتساب کے دعوئوں کے باوجود یہ ادارہ گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں بااثر افراد کے مؤثر احتساب میں ناکام رہا ہے۔
کرپشن کے بدترین اثرات کیخلاف عوام کا شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے ماہانا بنیادوں پر مہم چلائی جائے۔ عوام کو ترغیب دی جائے کہ وہ جہاں کہیں کرپشن دیکھیں تو اس کا فوری نوٹس لیں اور اپنی شکایات کا اندراج کرائیں۔ عوام کو سوشل میڈیا کے استعمال کی ترغیب دی جائے۔ بدعنوانی کیخلاف اطلاع دینے والے افراد کو قانونی تحفظ دینے کے قوانین بنائے جائیں۔ سیاسی اور سرکاری کرپشن میں ملوث افراد کو باقاعدہ تشہیر کی جائے۔ نیب کو سیاسی اثرات سے پاک کیا جائے۔کرپشن کی تحقیقات کے لئے ملک بھر سے دیانتدار افسران کا پول بنایا جائے۔ انسدادکرپشن کورٹس جوکرپشن کیسزکے فوری فیصلے کرے۔