سوشل میڈیا: ہماری جاسوسی کیسے اور کون کرتاہے....؟

فیس بک کے نائب صدر جوئل کیپلان آج کل پاکستان کے دورے پر ہیں‘ فیس بک پر قابل اعتراض اور گستاخانہ مواد ہٹانے کے حوالے سے گفت و شنید جاری ہے۔ جوئل کیپلان نے 7 جولائی 2017ءکو وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار احمد خان سے ملاقات کی اور ویب سائٹ سے توہین آمیز مواد ہٹانے کے حوالے اٹھائے جانے والے متعدد اقدامات پرتبادلہ خیال کیا گیا جو کہ پاکستان میں غیر قانونی اور منافرت و شرکی جڑ ہے امت مسلمہ کے جذبات مجروح ہونے کا بڑا سبب ہے۔ پوری مسلم امہ کوگستاخانہ مواد وائرل ہونے پر سخت تشویش ہے۔ ہمارے لئے مذاہب اورمذہبی شخصیات سے مقدس کوئی چیزنہیں۔ بھارتی ریاست مغربی بنگال میں سوشل میڈیا پر توہین رسالت کے خلاف ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں جس کے باعث فوج کو طلب کرلیا گیا ہے۔ اسی طرح پاکستان میں بھی سوشل میڈیا پر گستاخانہ اور منافرت پرمبنی مواد وائرل ہونے پر ہنگامے ہورہے ہیں جس کے باعث حکومت نے سوشل میڈیا پر شرپسندوں کی غیرذمہ دارانہ اورمنافرت پھیلانے کی سازش کو ناکام بنانے کےلئے مذہبی ہم آہنگی اور گستاخانہ مواد کو وائرل ہونے سے پیدا حالات کے پیش نظر حکومت نے نئے قوانین لاگو کئے ہیں۔ دوسری جانب نائب صدر فیس بک جوئل کیپلان کا کہنا ہے کہ وہ کمیونٹی اسٹینڈرڈ سے موافقت رکھنے والی اقدار کے فروغ کے لئے پر عزم ہیں‘ جعلی اکاﺅنٹس قابل تردید‘ نفرت انگیز اوراشتعال دلانے والے مواد کا خاتمہ ترجیح ہے۔ یکم جولائی 2017 سے وزارت داخلہ کے نئے مواصلاتی قوانین کا اطلاق ہو چکا ہے جن کے مطابق صارفین کی تمام کالز ریکارڈ کی جائیں گی۔ ان میں سیلولر فون کالز، وٹس ایپ کالز، ٹویٹر کالز، فیس بک کالز اور دیگر تمام سوشل میڈیا پر کی جانے والی کالز شامل ہیں۔ تمام تر میسجز اور کالز وزارت داخلہ کے سسٹم سے منسلک کی جا رہی ہیں۔ لہٰذا غیر ضروری میسجز سے اجتناب کیا جائے۔اپنے عزیز و اقارب رشتہ داروں اور دوستوں کو احتیاط کرنے کی تنبیہ کریں۔ کوئی بھی انتشار پسندی، انتہا پسندی پر مبنی مذ ہبی ، سیاسی، پوسٹس اور موجودہ حکومتی یا پرائم منسٹری ایشوز سے متعلقہ پوسٹس فارورڈ نہ کی جائیں۔ سائبر کرائم نوٹیفکیشن جاری کر دیا گیا ہے جس کے مطابق سیاسی اور مذہبی بحث پر مبنی انتشار پسندی فرقہ واریت والے میسجز کرنا جرم ہے۔
وزارت داخلہ کی سوشل میڈیا کی کارروائی اور ہمارے ڈیٹا مانیٹرنگ کے حوالے سے ہمارے ایک عزیز عمیر مسعود نے واٹس ایپ پر ایک پوسٹ بھیجی آج کل کے واقعات و حالات اورصورتاحال کے سبب پوسٹ کا تذکرہ ضروری ہے۔ یہ ویکیلیکس‘ پانامہ لیکس اورمستقبل میں آنے والے لیکس کیونکراور کیسے رونماہوتے ہیں۔ اب ہماری کس طور پر مانیٹرنگ کی جارہی ہے اور سیکیورٹی لیکس کرنے والے کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔ انہی سیکیورٹی لیکس کی وجہ سے نہ صرف پاکستان کے حکمران اور اس سے قبل سابق حکومت کی کرپشن عیاں ہوئی بلکہ دنیا کی بیشتر بڑی شخصیات کی بد عنوانیاں منظرعام پر آئیں۔ سوشل میڈیا کو بے ضرر اورمحفوط سمجھنے والے‘ اس میں اپنی ذاتی معلومات اور حساس مواد شائع کرنے والے انٹرنیٹ پر کسی بھی قسم کے مواصلاتی رابطہ کرنے والے خط و کتابت کرنے والے یہ بخوبی سمجھ لیں کہ ان کی معلومات اور یہ سب کچھ کہیں نہ کہیں مانیٹر ہورہے ہیں۔ جسے کسی بھی جائز ناجائز مقصد کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ پہلا سوال یہ ہے کہ ہماری جاسوسی کیسے کی جاتی ہے‘ ہمارا ڈیٹا کون مانیٹر کررہا ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا کہ جب آپ gmailمیں اپنی ای میل پڑھ رہے ہوتے ہیں تو سائیڈ بارمیں چلنے والے اشتہار آپ کی ای میل میں موجود مواد(content) کے مطابق ہی کیوں ہوتے ہیں کیونکہ آپ کی ساری ای میلز خودساختہ سافٹ وئر سے ا سکین اور محفوظ بھی ہو رہی ہوتیں ہیںیا پھر کبھی غور کیجئے گا آپ کوکبھی کسی ایسے دوست کی فون کال یا ایس ایم ایس آئے جو آپ کے پاس فیس بک پر ایڈ نہیں ہے توآپ کچھ دن بعد ہی فیس بک پر اسکو ریکمنڈڈ فرینڈ لیسٹ (recommended friend list)میں دیکھیں گے۔ کیونکہ فیس بک آپ کے موبائل پر ہونے والی تمام کالز،ایس ایم ایس کو پروسیس کر رہا ہوتا ہے ۔کیا کبھی آپ نے سوچا ہے کہ واٹس ایپ اور اس طرح کی باقی ایڈ فری ایپس فری کیوں ہوتی ہیں؟ کیا انکو بنانے میں، چلائے رکھنے میں لاکھوں ڈالر کی ضرورت نہیں ہوتی اور وہ کہاں سے آتے ہیں؟یقینا ڈونرز دیتے ہیں مگر انکے مقاصد کیا ہوتے ہیں؟شاید آپ کو یہ بھی معلوم ہو کہ ایپل اور گوگل کو دنیا کے ہروائی فائی کا پاس ورڈ معلوم ہے، ان دونوں کے پاس دنیا میں موجود ہر موبائل کی call logs, contact list, sms history, location history, image gallery غرض کہ جو کچھ بھی آپ کے موبائل میں موجود ہے وہ انکی پہنچ میں ہے۔
جب بھی ہم کوئی ایپ انسٹال کرتے ہیں تو وہ بھی ہمارا دیٹا مختلف سرورز کو بھیج رہی ہوتی ہیں۔ ایک حالیہ تحقیق کے مطابق 53 فیصد ایپس دیٹا چوری کرتی ہیں، ایک مثال فلیش لایٹ ایپ کی ہے جس کا مقصد اندھیرے میں موبائل کو ٹارچ بنانا ہے مگر یہ آپ کی کانٹکیٹ لسٹ(contact list) کو چوری کرتی ہے۔ یہاں پر بیسیوں مثالیں دی جا سکتی ہیں‘دنیا میں ہر روز 18وائرس یا ٹروجن بنائے جاتے ہیں جو میرے اور آپ کے لیے ہی ہوتے ہیں۔ جن کا کام آپ کے ڈیجیٹل ڈیٹا تک رسائی ہے۔انٹرنیٹ پر موجود ہر شخص کی ڈیجیٹل پروفائلنگ (digital profiling)ہو رہی ہوتی ہے آپ جو کچھ بھی سرچ کرتے ہیں جو کچھ بھی براوز کرتے ہیں، سوشل میڈیا پر جو کچھ شیئر کرتے ہیں‘جوکچھ لائک کرتے ہیں اسکی بنیاد پر سافٹ ویر خودساختہ طور پر آپ کو معمولی سے انتہائی خطرات کے درجات میں رکھتا ہے اور ایک ڈیٹا بیس میں مسلسل ریکارڈ کیا جاتا ہے۔ آپ جب بھی بین الاقوامی سفر کرتے ہیں تب بھی اسی سنٹرل ڈیٹا بیس میں آپ کے سفر کی معلومات کا اندراج ہو جاتا ہے ، ہمارے کریڈٹ کارڈز اور بینک اکاونٹ تک کی تفصیلات بھی اس میں محفوظ کر لی جاتی ہیں۔ آپ کی شخصیت ، آپ کی سوچ، آپ کے خیالات، آپ کے پیسوں کے لین دین کو مسلسل اس ڈیٹا بیس میں رکھا جاتا ہے‘جب بھی کسی شخص کے بارے میں معلومات کی ضرورت ہوتی ہے تو اس ڈیٹا بیس سے ایک کلک سے حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ سافٹ ویرآپ کے جذبات کے اتارچڑھاو کا حساب رکھتے ہوے مستقبل میں آپ کے بارے میں پیش گوئی بھی کرسکتا ہے۔ اب دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ کرتا کون ہے گوگل، فیس بک اور بہت ساری ایسی سروسز کی مالی، اخلاقی اور تیکنیکی مدد کون کرتا ہے؟ انکو مختلف قسم کے پروجیکٹ اور ٹارگٹ کون دیتا ہے‘ جو دنیا میں ہونے والی کم و بیش تمام ڈیجیٹل جاسوسی کا منبع ہیں امریکہ کی نیشنل سیکورٹی ایجنسی(NSA) برطانیہ کی گورنمنٹ کمیونیکشن ہیڈکوارٹرز (GSHQ) ایڈورڈ سنوڈن نے انکے بارے میں انکشاف کیا تھا کہ اس ایجنسی کوپاکستان میں ہونے والی کروڑو فون کالز تک رسائی ہے اور یہ ریکارڈ بھی کرتی ہے۔ اسی طرح کینیڈا کی کمیونیکشن سیکورٹی اسٹبلشمنٹ (CSEC)‘آسٹریلیا کی سگنلز دائریکٹوریٹ(ASD) ‘ نیوزی لینڈ کی گورنمنٹ کمیونیکشن سیکورٹی بیورو (GCSB) اور سب سے اہم بات ان سب کی جاسوسی اسرائیلی موساد کرتی ہے‘ابھی اس کو پھیلا کر وسیع اتحاد بنانے کی تیاریاں ہو رہیں ہیں، اسکے علاوہ انکی آلہ کار سیکڑ وں این جی اوز، ٹیکنالوجی فرمیں اور مختلف فرموں میں موجود دلال، اس عالمی نیٹ ورک کا حصہ ہیں۔ ایسی صورت حال میں اپنے آپ کو کسی نا مساعد حالات اور صورتحال سے بچانے کے لئے‘ سائبر کرائم سے بچنے کے لئے انٹرنیٹ استعمال کرتے ہوئے محتاط رہا جائے۔

ای پیپر دی نیشن