ملک کے عوام پنجابی کی بولی گُنگُنا رہے ہیں،©”ٹانگا آ گیا کچہریوں خالی تے سجناں نوں قیدبول گئی اوئے ربا میریا“ مفہوم تو اس بولی کا کافی گہرا ہے مگر مختصراً یہ کہ ساجن نے جُرم کیا ،گرفتارہُو ا ، مقدمہ قائم ہُوا ، آج فیصلہ تھا ۔ گاو¿ں سے تانگا بھر کے عزیز رشتے دار عدالت پہنچے۔ تانگا ویسے تو بھرے کا بھرا واپس آ گیا مگر ساجن تانگے میں نہیں ہے۔ وجہ یہ ہوئی کہ ساجن صاحب کو قید کی سزا ہو گئی اور اُنہیں جیل بھیج دیا گیا۔ اب بین ہو رہے ہیں اور بھرا تانگا خالی خالی سا لگ رہا ہے ۔پاناما کیس آگے بڑھ تو رہا ہے مگر رفتار کچھوے کی سی ہے۔پیر کو جے آئی ٹی نے،جسے چند اینکرنیاں جی آئی ٹی بولتی ہیں، حتمی رپورٹ پیش کر دی اور اس عذاب سے چھ جانیں چھوٹیں۔اب پیشی سپریم کورٹ میں ہے اور تانگے بھر بھر کے ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کی جانب رواں دواں ہیں، آپ بُلھڑوں، نعروں، بلند بانگ دعووں، بڑھکوں، دھمکیوں اور چیخم دھاڑ کی آوازیں سُن رہے ہوں گے۔ ہر تانگے کی ہر سواری دوسرے تانگے کی سواریوں سے گلا پھاڑنے کی ریٹ ریسRat Race میں اول آنے کی بھرپور کوشش میں ہے تا کہ اپنے ساجن کی نگاہوں میں اُبھر کر آئے اور بعد میں پھل کے ٹوکرے سمیٹے۔ ساجن اپنی مقبولیت پر مغرور ہے اور زیرِ لب مسکرا رہا ہے کہ یہ ساجن پرست قوم کس کس قسم کے بےہودہ بُتوںکو ساجن سمجھ کر ہلکان ہوئی جا رہی ہے۔ ساجن کو یہ بھی پتا ہے کہ اگر ساجن کو قید بول گئی تو یہ سب جیالے، متوالے، پروانے، دیوانے سیانے دور دور تک کسی کو بھی نظر نہیں آئیں گے ،مٹھائیاں بانٹ یا کھا رہے ہوں گے اور اگلا ساجن تلاش کر رہے نہیں کر چکے ہوں گے۔ ہماری تاریخ تو یہی بتاتی ہے اگے تیرے بھاگ لچھیے۔ اس تمام سیاپے کے باوجود چند ارواح ایسی ہیں جنہیں قوم اور ملک کے مستقبل کی فکر ستاتی رہتی ہے اور وہ اپنی بساط کے مطابق قوم اور حکام کو احساس دلانے کی کوششیں کرتے رہتے ہیں۔ ان میں ہمارے سابق وائس چانسلر انجینئرنگ یونیورسٹی جنابِ ڈاکٹر جمیل احمد خاں صاحب بھی ہیں۔ یکم جولائی ہفتے کے روز اُنہوں نے دی پاکستان اکیڈیمی آف انجنئرنگ کی طرف سے آٹھواں سمپوزیم مقامی ہوٹل میں منعقد کیا۔ موضوع تھا:Hydrogen, Carbon-Free-Fuel, Democriatizing The Energy (ہائیڈروجن، کاربن سے مبرّا ایندھن، توانائی کو جمہوری حُسن عطا کرنا)۔ ڈاکٹر جمیل احمد خاں صاحب چوں کہ قلبِ مومن رکھتے ہیں لہٰذا آٹھویں سمپوزیم کو بھی حسبِ روایت ٹھیک وقتِ مقررہ پر شروع اور ختم کیا۔ موعودہ وقت کی پابندی اسلامی تعلیمات کا روشن اصول ہے۔ ہر چند کہ ڈاکٹر صاحب متعلقہ حکومتی محکموں کے سربراہان کو بھی مدعو کرتے ہیں مگر سوائے ایک بار کے کسی حکومتی سربراہ نے ان خیال افروز سمپوزیمز کو اہمیت نہیں دی۔ وہ ایک استثنا بھی اُس وقت کے صوبائی وزیر اور حال کے وزیرِ اعلیٰ سندھ جناب مراد علی شاہ صاحب نے قائم کیا اور انتہائی تحسین اور حیرت کی بات یہ تھی کہ وزیرِ موصوف وقتِ مقررہ پر تشریف لائے تھے۔ اُس وقت ہمیں امید بندھی تھی کہ اب حکومت کی ترجیحات صحیح ڈگر پر آ رہی ہیں مگرخیر تو سمپوزیم میں ڈاکٹر جمیل احمد خاں صاحب کے علاوہ ڈاکٹر کو سکاتوKo Sakata، ڈائریکٹر ہائیڈروجن پروگرام انسٹیچیوٹ آف ایپلائیڈ انرجی، جاپان، ڈاکٹر انجینئرسید مُشاہد حسین ہاشمی چئیرمین محکمہ¿ آٹو موٹِواینڈ میرین انجنئیرنگ NEDUET ، کراچی اور ڈاکٹر انجنئیر غُفران بالا بزنس ڈیویلپمنٹ مینیجر نے ہائیڈروجن کے کاربن فری استعمال اور دیگر فوائد پر بسیط تبادلہ¿ خیالات کیا کیوں کہ سوال و جواب کا سلسلہ بھی تھا۔ٹھیک گیارہ بج کر دس منٹ پر کافی کے لیے حاضرین اُٹھے اور ٹھیک ایک بجے سمپوزیم کا اختتام ہُوا اور سب حاضرین، کہ خاصی بڑی تعداد میں تھے، بوفے لنچ کے لیے تشریف لے گئے۔ہم یہ امید لے کر رخصت ہوئے کہ ممکن ہے کبھی ہماری حکومتوں کی ترجیحات میں لُوٹ مار کے علاوہ بھی کوئی ترجیح (ملک و قوم کی خدمت کی )آجائےگی! خیر ہم بھی شجر سے پیوستہ ہیں اور امیدِ بہار رکھتے ہیں۔ وہ صبح کبھی تو آئے گی!!ہماری اور دنیا بھر کی عدالتوں میں یہ اصول رائج ہے کہ ملزم اگر اپنی صفائی میں کوئی گواہ رکھتا ہے تو ملزم پر لازم ہے کہ عدالت میں گواہ پیش کر کے اپنی صفائی دے۔ مگر نون لیگیوں کا استدلال یہ ٹھہرا کہ بھلے تفتیش ہمارے وزیرِ اعظم کی ہو رہی ہو ہمارے حق میں جس نے مشکوک گواہی کی حامی بھری ہے اُسے تفتیش کنندگان ہی عدالت میں لے کر آئیں۔ اور اگر صفائی کا مشکوک گواہ عدالت میں آنے سے کترا رہا ہے تو عدالت کا فرض ہے کہ وہ ملکِ غیر میں جائے اور مشکوک گواہ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو کر تفتیش کرے ورنہورنہخیر آگے عدالتِ عظمیٰ کی مقرر کردہ تفتیشی ٹیم پر ہر طرح کی غیر مہذب دھمکییوں کی بارش برسائی گئی اور اپنے ظرف اور چھچھور پن کی نمائش کی گئی۔حیرت ہے کہ جیالے اور متوالے کیسے گئے گُذرے نمائندوں کو ووٹ ڈال دیتے ہیں! اگر ووٹ کم پر جائیں تو ٹھپّے لگائے جاتے ہیں اور تھیلے بدلے جاتے ہیں اور ردی کاغذ بھی مخالفین کے تھیلوں میں بھر دیے جاتے ہیں اور پھر بھی کوئی کسر رہ جائے تو الیکشنی کارندوں کو خرید کر بھاری مینڈیٹ ہتھیا لیا جاتا ہے اور پھر ملک اور قوم کی دولت جی بھر بھر کے لُوٹی جاتی ہے اور پھر بھی جی نہیں بھرتا اور خاندانی بادشاہت قائم کرنے کی بھرپور کوشش کی جاتی ہے جب کہ بادشاہ،شاہزادے اور شہزادیاں یا تو قبل از پیشی تیار کردہ تقریر پڑھ کر یا کانوں میں مُنے سے آویزہ نُما صوتی آلات لگا کر یا رومن میں ٹائپ شدہ مبینہ تقریریں پڑھ کر ہلکان ہو رہے ہیں۔ ہماری تو دعا ہے کہ اللہ اِن بادشاہوں، شاہزادوں شاہزادیوں کی مشکلات آسان فرمائے اور پاکستان کے عوام کو تمام ظالموں سے نجات عطا فرمائے۔آمین۔آخر میں سو نسخوں کا ایک نُسخہ: اگر ہم مسلمان صرف جھوٹ بولنا یک لخت اور یکسر ختم کر دیں تو یہ ملک حقیقی معنوں میں جنت بن جائے۔اور اگر ہم کما حقہ‘ ٹریفک اصولوں پر عمل کرنا شروع کر دیں تو تمام ملک سے بے شمار جرائم کا یکلخت اور یکسر خاتمہ ہو جائے! ذرا سوچیے کیا یہ کوئی مشکل کام ہیں؟ غور کیا جائے تو جتنے بھی غَلَط کام یا جرائم ہیں اُن میں بے انتہا محنت کرنا پڑتی ہے، خوف، بے چینی، پریشانی دل و دماغ اور ضمیر کا ستیاناس کر دیتے ہیں۔ جب کہ تمام اچھے اور نیک کاموں میں آسانیاں ہی آسانیاں ہوتی ہیں۔ دعا ہے ہم آسانیوں کی راہ پر لگ جائیں۔ کوڑے کرکٹ کو مناسب طور پر ٹھکانے لگائیں، کچرہ نہ پھیلائیں اور جمالیات کو اپنا لیں۔ آمین ۔
تے سجناں نوں
Jul 12, 2017