”منے“ کا ابا سازش کررہا ہے ؟

Jul 12, 2017

امیر محمد خان

دیہاتوں، گاﺅں اور کم پڑھے لکھے خاندانوں میں جب خاتون اپنے شوہر کا ذکر کرتی ہے تو خاتون منے کے ابا کہہ کر پکارتی ہے۔ یہاں تک کہ اگر شوہر کا نام رحمت اللہ ہے تو کہتے ہیں کہ وہ نماز میں سلام پھیرتے ہوئے ”السلام علیکم منے کے ابا“ ہی کہتی ہے۔ یہ کچھ آج کل مسلم لیگ کا معاملہ ہے جب معاملہ JIT میں آیا تو وہ JIT کے اراکین کے خلاف سیخ پا ہونے شروع ہوگئے مگر وہ الزام براہ راست JIT کے اراکین کو نہیں بلکہ کسی اور کا ذکر کرتے ہوئے الزام دیتے ہیں کہ انکے خلاف سازش کررہا ہے، رہی حزب اختلاف تو اسکا تو کام ہے حکومت کے خلاف الزام تراشی (صحیح یا جھوٹی یہ مسئلہ نہیں) ہماری جمہوریت ہرگز بھی اتنی مضبوط نہیں کہ وہ کسی حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دے یہ کام مسلم لیگ نے تو کیا تھا پی پی پی کیلئے اور ان پر ”فرینڈلی اپوزیشن“ کا الزام بھی لگا اور وہ اس فرینڈلی اپوزیشن کو جمہوریت کی مضبوطی کا نام دیتے رہے نیز میثاق جمہوریت کا بازو پکڑے رہے جبکہ پی پی پی نے جو کرنا تھا وہ کیا یا پی پی پی جو آج کررہی ہے پی پی پی ایسی کسی جمہوریت پر یقین نہیں رکھتی کہ موقع لگے اور داﺅ نہ لگائے اگر شہید بے نظیر ہوتیں تو اور بات تھی جو میثاق جمہوریت کرنے والی رہنماءتھیں، اسی میثاق جمہوریت کو بعد میں آصف ذرداری کہہ چکے ہیں کہ ”کوئی آسمانی صحیفہ نہیں“، مگر پی پی پی کے اپنے مسئلے مسائل بہت ہیں عوام میں انہیں علم ہے کہ وہ اب کتنے ”مقبول“ ہیں اسلئے زیادہ تر ملک سے باہر رہتے ہیں، ملک میں آکر میاں نواز شریف کو بے پرکی سنا کر پھر ملک سے چلے جاتے ہیں۔ ان کا دعویٰ تھا کہ پنجاب میں ڈیرہ لگائینگے، جب انہوں نے یہ اعلان کیا تو ان کی پارٹی کے لوگ پنجاب سے تحریک انصاف کے سایہ میں جمع ہونا شروع ہوگئے اس خوش فہمی میںکہ اب حکومت کی باری تحریک انصاف کی ہے، پی پی پی فی الحال تحریک انصاف سے دور ہے مگر طلال چوہدری اور خواجہ سعد رفیق جیسے لوگ ضرور تحریک انصاف پی پی پی کا اتحاد کرا دینگے۔ بات ہورہی تھی ”منے کے ابا“ کی۔ JIT مسلم لیگ ن کی آج تک کی بات چیت میں ایک مدبرانہ بیان صرف مریم بی بی کا تھا ورنہ باقی لوگوں کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں، یہ ”منے کے ابا“ کون ہیں جن کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ کوئی سکرپٹ لکھ رہا ہے، اگر یہ معلومات صحیح ہیں تو اس ”منے ابا“ کا نام بتانا پڑے گا اگر میاں نواز شریف پر الزمات ثابت ہوگئے جس کے آثار کم ہی ہیں اور یہ کام ایک دو دنوںکا نہیں ایک طویل عرصہ درکار ہے اور اب معاملہ اعلیٰ عدالت میںجائے گا جس کی بحالی کیلئے مسلم لیگ اور نواز شریف کی خدمات ہیں۔ عدالت کی جانب سے الزام میں نواز شریف نشانہ بنے تو پھر منے کے ابا کا نام بتایا تو بے کار ہے۔ بہرحال اس وقت سیاست اپنے زوروں پر شروع ہوچکی ہے اور یہ بات طے ہے کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اگر حکومت کی حمائت میں ہوا تو یہ حزب اختلاف اور خلاف ہوا تو یقینی بات ہے کہ مسلم لیگ نہیں مانے گی جس کے لئے ماحول تیار ہوچکا ہے اور عوام ایک مرتبہ پھر افراتفری کا شکار ہونے جارہے ہیں۔ اس افراتفری میں ملک کی معشیت اور ترقی کا نقصان ہی ہے، جیسا میں نے اوپر لکھا کہ جمہوریت ہمارے ہاں مضبوط نہیں ہے اور نہ ہی حزب اختلاف عقل کے ناخن رکھتی ہے جس کے پیش نظر ملک کی ترقی اور خوشحالی ہو، مسلم لیگ ن اگر JIT سے نالاںہے تو تحریک انصاف الیکشن کمیشن سے مفرور۔ ہمارے سیاست دان تو ایسے ہیں کہ مسلم لیگ ق کے چوہدری صاحبان اقتدار کی ہوس میں فوجی پرویز مشرف کو آئندہ دس سال کیلئے شیروانی پہنانے پر تیار تھے یا کینیڈین مولانا اور روز اپنا بیان بدلنے والے، ڈھونڈ ڈھونڈ کر کرپٹ لوگوںکو تحریک انصاف میں اقتدار کی ہوس میں اور کئی ماہ تک عوام کو سڑک اور خود بنی گالہ یا ائیرکینڈیشنڈ کنٹینر میں بیٹھنے والے عمران خان بھی ایمپائر کی ”انگلی“ کا انتظار کرتے رہے۔ یہ ہے ہوس اقتدار کہ اقتدار کا short cut اختیار کیا جائے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ مسلم لیگ ن نے عمران خان کو ایک ”ا ستعارہ“ بنایا ہے ”منے کا ابا“ شائد کوئی اور ہے جس کا نام نہیں لے پارہے، یہ ان کی غلطی ثابت ہوگی۔ اگر میاں صاحب یا ان کے کارندے ملک کے بنیادی مسائل جو براہ راست عوام سے وابسطہ ہیں بجلی، مہنگائی، معشیت پر توجہ دیتے تو منے کے ابا کا نام بتانے پر کوئی حرج نہ تھا اور واقعی 2018 میں جس JIT ذکر کرتے ہیں، اس میں ان کو کامیابی نصیب ہوتی، مریم بی بی نے بہت خوبصور ت نعرہ دیا ہے ”نواز شریف کو روک لو، مگر اپنے سیاسی منظر پر آنے کا اعلان 5 جولائی کو کیا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ہرگز اچھا دن نہیں اس صورتحال میں وزیراعظم نہایت پرعزم نظر آتے ہیں اگر ایسا ہے تو اپنے کارندوںکو روکیں وہ کیوں پریس کانفرنسوں کے ذریعے اپنا گلا خشک کررہے ہیں۔ اس صورتحال میں سب سے زیادہ مزے میڈیا کے ہیں اور الیکٹرانک چینلز (وقت نیوز چھوڑ کر) کئی چینلز عوام کو اپنی پوری قوت سے گمراہ کررہے ہیں اور میڈیا کی ذمہ داری ادا کرنے کے بجائے سیاسی کھیل کا حصہ بنے ہوئے ہیں، میڈیا کے اس منفی کردار کی بناءپر عوام میں صحیح اور جھوٹ کی تمیز ختم ہو چلی ہے جو کسی ملک کیلئے ایک بہت ہی نقصان دہ چیز ہے۔ گزشتہ دنوں جدہ کی ایک تقریب میں پاکستان سے آئے ہوئے ایک روزنامہ کے ایڈیٹر اور سینئر صحافی مظفر اعجاز نے ایک خوبصورت بات کی کہ پاکستان میں میڈیا کا یہ حال ہے کہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اگر خداناخواستہ اس ملک کو کوئی نقصان ہوا تو اس کے ذمہ دار سیاست دان، ادارے نہیں بلکہ میڈیا ہوگا جو ایماندارانہ صحافت سے دور ہے۔ یہ ملک بہت مضبوط ہے الحمداللہ، کسی پانامہ سے، وزیراعظم نواز شریف چلے جائیں، پھر آجائیں، ذرداری چلے گئے پھر حکومت میں آجائیں، اس سے ملک کو کوئی خطرہ نہیں ہاں جمہوریت کی ابتدائی کلاسوں میں داخلہ لینے کی ضرورت ملک کے تمام سیاسی لوگوںکو ہے جس میں یہ تعلیم ہوتی ہے کہ ملک کی جڑیں کھوکھلی کرنے کیلئے ہرگز غیر ملکی قوتوں سے سہارہ نہ لو اور عوام کی رائے کا احترام کرو، انہیں مایوسی کے گڑھے میں نہ دھکیلو۔ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ عمران خان نے ایڈیالہ جیل دیکھ لی، چاہے اس میں کسی کو بھی دیکھا ہو۔ مگر جیل جیسی چیزیںدیکھنا کوئی اچھا شگون نہیں۔

مزیدخبریں