ڈو مور کا تقاضا اور حالیہ چیلنجز

Jul 12, 2017

رانا زاہد اقبال

امریکی سینیٹر جان مکین نے افغانستان میں کہا ہے کہ پاکستان ہمارا ساتھ دے اور حقانی نیٹ ورک اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے۔ حال ہی میں پینٹا گون کی جانب سے جاری کی گئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں طالبان اور حقانی نیٹ ورک کی اعلیٰ قیادت کی محفوظ پناہ گاہیں موجود ہیں جب کہ پاکستان کا اصرار ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف آپریشن بلا تخصیص کر رہا ہے، پاکستان کی نیت پر شک کرنا بلا جواز ہے اور حقانی یا کسی بھی دوسرے انتہا پسند نیٹ ورک کو استثناء حاصل نہیں ہے برسوں گزر گئے ہیں ہم اس جنگ میں شریک ہیں اور ہر روز اپنی جانوں کی قربانی دینے کے ساتھ یہ شکایت بھی سنتے ہیں کہ ہم ان کے اعتماد پر پورے نہیں اتر رہے ہیں۔ امریکہ بھارت کو خوش کرنے کے لئے بے جا الزام تراشیاں کر رہا ہے ورنہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی سیکورٹی ایجنسیز دہشت گردی کے عفریت کے مکمل خاتمے کے لئے سرگرم ہیں جس کے مثبت نتائج و اثرات سب کے سامنے ہیں وہ وقت ہماری قومی بے حمیتی کی انتہا کا تھا جب ہم نے ایک مسلمان پڑوسی ملک پر امریکہ کے حملے اور اس کے خلاف جنگ کو اپنی جنگ قرار دے دیا۔ وہ ایک فوجی حکمران کا زمانہ تھا جس نے امریکہ کی فرمائشوں کو من و عن فوراً تسلیم کر کے امریکیوں کو بھی حیران کر دیا تھا۔ پاکستانی عوام تو اب تک حیران ہیں کے ایسے ایسے حکمران بھی ہم پر مسلط ہوئے تھے۔
امریکہ کا پاکستان کو حقانی گروپ کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے سے قبل زمینی حقائق اور اپنی عسکری قوت و تزویراتی صلاحیت اور کھربوں ڈالر کے جنگی اخراجات سے حاصل شدہ نتائج پر ذرا غور کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان سے جن نتائج کی توقع رکھتا ہے اس کی یک طرفہ اور اعلانیہ تکمیل میں امریکہ کو خود کتنی کامیابی نصیب ہوئی ہے جب کہ حقائق سامنے ہیں کہ افغانستان کی صورتحال نائن الیون سے آج تک مسلسل بگڑتی جا رہی ہے اور اس میں پیش رفت کی کوئی جھلک نظر نہیں آتی۔ افغان صورتحال کی پیچیدگی نے امریکی حکمتِ عملی کو بند گلی میں پہنچا دیا ہے جب کہ امریکی سمجھتے تھے کہ وہ افغانیوں کو عبرت ناک شکست دے کر افغانیوں کا یہ زعم توڑ دیں گے کہ ان پر کوئی حکمرانی نہیں کر سکا۔ اصل مسئلہ بھی نیٹو افواج کی افغانستان میں موجودگی ہے جو طاقت کے بل پر پختونوں کے خلاف کاروائیاں کر رہے ہیں۔ اگر افغانستان میں غیر ملکی افواج موجود نہ ہوں تو افغانستان میں ویسے ہی امن و امان پیدا ہو سکتا ہے۔
افغانستان میںامن کے لئے حقانی نیٹ ورک کے خلاف کاروائی کافی نہیں کیونکہ ایک ایسی دنیا جہاں اگر نتائج امریکی مفادات کے خلاف ہوں تو جمہوریت کوئی معنی نہیں رکھتی ۔ ایک ایسی دنیا جس میں امریکی مفادات سے اختلاف کا اظہار دہشت گردی کا ٹھپا لگا دے اور نگرانی، ظلم و جبر اور ہلاکت کا جواز فراہم کرے یہی نہیں بلکہ امریکہ نے خوفزدہ کرنے اور تشدد کی دھمکی کے ذریعے دوسرے ممالک کو اپنی صف میں شامل کیا اس فلسفے کے تحت کہ یا ہمارے ساتھ ہو یا مخالف نہیں تو دہشت گرد قرار دئے جاؤ گے اس کا نشانہ پاکستان جیسے ممالک ہی نہ بنے بلکہ یورپی ممالک کو بھی ایسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ حقیقت یہ ہے کہ جس طرح امریکہ نے دہشت گردی کو خارجہ پالیسی کے آلے کے طور پر استعمال کیا ہے وہ امپریلزم کی تاریخ میں سیاہ اور ہولناک اضافہ ہے۔ امریکی جارحانہ پالیسی نے پوری دنیا کے امن کے لئے شدید خطرات کو جنم دیا اور صاف نظر آ رہا ہے کہ اس سلسلے کو روکنے کی کوئی مٔوثر کوشش نہ ہوئی تو دنیا عالمی عدم استحکام کا شکار ہو جائے گی۔ بات بالکل عیاں ہے کہ حقانی ہی نہیں ہر وہ ملک جس سے امریکہ کے مفاد کو کسی شکل میں بھی خطرہ ہوا اسے دہشت گردی کے نام پر مطیع بنانے کی کوشش کی گئی۔
کہیں نیو کلیئر نظام و تنظیمات کی نگرانی، قبضے اور اثر اندازی کے منصوبے بنائے جا رہے ہیںکہیں فوج اور عوام میں اسلامی رجحانات کو لگام دینے کی تیاریاں اورتقریباً 50 ملکوں کو حقانی، داعش، القاعدہ اور طالبان کے چکر میں ملوث کر دیا گیا۔جس کا بنیادی مقصد امریکی بالادستی اور اس امر کا اہتمام کرنا کہ یہ بالادستی 21 ویں صدی میں قائم رہے، امریکی فوجی برتری اور اس کو نہ صرف ناقابلِ تسخیر رکھنا بلکہ اس بات کی ضمانت کہ ایسی عسکری صلاحیت دوسرے ملکوں میں پیدا نہ ہو جو امریکہ اور اس کے اسٹریٹیجک پارٹنرز کو چیلنج کر سکے، دنیا کے معاشی وسائل پر قبضہ، تہذیبی میدان میں مغربی کلچر اور ثقافت کا عالم گیر غلبہ اور دین و مذہب خصوصاً اسلام کی بنیاد پر اجتماعی زندگی کی شیرازہ بندی کے امکانات کو معدوم کرنا۔
اس صورتحال کے تناظر مین ہمارا لائحہ عمل کیا ہونا چاہیے جب امریکہ بار بار ہم سے ڈو مور کا تقاضا کرتا ہے کیونکہ اگر امریکہ کا سپر پاور ہونا ایک حقیقت ہے تو پاکستان بھی ایک نیو کلیئر پاور اور مسلم امہ کا استعارہ ہونے کے ناطے ایک حقیقت ہے اور یہ اس طرح ہی سامراجی احکامات پر سرجھکا کر عمل کرتا رہا تو تمام مسلم امہ کی نہ صرف حوصلہ شکنی ہو گی بلکہ مایوسی کا شکار بھی ہو جائے گی۔ اس لئے ضروری ہے کہ تصادم سے پہلو بچاتے ہوئے اپنے آپ کی اصلاح کا حصول، اپنے وسائل کی ترقی اور اپنی قوت کا استحکام ہمارا اصل ہدف ہونا چاہئے۔ قدرِ مشترک کی تلاش اور اس پر تعلقات استوار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، آج دنیا کے حالات اس نہج پر ہیں کہ کچھ اصولوں پر سب کو لایا جا سکتا ہے اس میں تمام انسانوں کا بھلا ہے۔ اسی اصول کو مدِ نظر رکھا گیا تو پاکستان وقت کے چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے کیونکہ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکہ، یورپ بالخصوص اسرائیل، بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہیں اور سب پاکستان کے ایٹمی خطرے کو ختم کرناچاہتے ہیں۔ امریکہ اس خطے میں بھارت کو برتر طاقت سمجھتا ہے اور پاکستان وغیرہ کو بھارت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ امریکہ بھارت کی برتری اور سرپرستی کے لئے بیتاب رہتا ہے لیکن بھارت کی سرداری کی راہ میں پاکستان کا بم رکاوٹ ہے۔

مزیدخبریں