استاد محترم اخلاق بارے لیکچر دے رہے تھے کہ زبان دشمن کو بھی دوست بنا دیتی ہے اور دوست کو دُشمن‘ غصہ حرام ہوتا ہے ہر کسی سے پیار اور محبت سے پیش آنا چاہئے کسی کی دل شکنی نہیں کرنی چاہئے وہی بات جو ہم غصے میں کرتے ہیں۔ اچھے اخلاق سے بھی کی جاسکتی ہے، اس طرح کے دوسرے اخلاقی اور غصہ کو قابو میں رکھنے والے جملے بچوں کو سمجھا رہے تھے۔ لیکچر دینے کے بعد استاد نے طالب علموں کو ہوم ورک دیا،اتنے میں چھٹی کی گھنٹی بجی اور بچے قطار کی صورت میںکلاس روم سے باہر جانے لگے۔
اگلے دن ٹیچر کلاس روم میں داخل ہوئے اوربچوں کو ہوم ورک چیک کروانے کو کہا ساری کلاس نے ہوم ورک کیا ہوا تھا سوائے ایک لڑکے کے۔ استاد نے اسے کچھ نہ کہا اور بیٹھ جانے کو کہا۔ دوسرے دن بھی معمول کے مطابق ہوم ورک چیک کیا گیا اور وہی ایک لڑکے کے سوا سب نے ہوم ورک کیا ہوا تھا۔استاد نے دوسرے دن بھی اسے کچھ نہ کہا۔ یہ عمل چار روز تک جاری رہا۔ صرف ایک لڑکے کے جوہوم ورک کر کے نہیں لاتا تھا۔ باقی سب لڑکوں نے ہوم ورک کیاہوتا۔ پانچویں دن معمول کے مطابق ہوم ورک چیک کیا گیاتو آج بھی اُسی لڑکے نے ہوم ورک نہ کیا تھا۔ استاد نے اس لڑکے کو اپنے پاس بلایا اور زوردار تھپڑ رسید کیا۔ لڑکا بوکھلا گیا اور استاد کے دیئے گئے لیکچر کے فقرے دہرائے۔ لڑکے نے کہا چاہئے تو یہ تھا کہ آپ مجھے پہلے دن ہوم ورک نہ کرنے کی وجہ پوچھتے اورمیں آپ کو وجہ بتاتا آپ نے پہلے دن کچھ نہ کہا دوسرے دن کچھ نہ کہا پھر ہوم ورک نہ کرنا میرا معمول بن گیا۔ لکھنے کا مطلب یہ ہے کہ کسی کے بھی قول و فعل میں تضاد نہیں ہونا چاہئے،بالخصوص اساتذہ جن کو روحانی باپ کا درجہ دیا گیا ہے۔ یہ تو سب جانتے ہیں کہ استاد اور شاگرد کا کیا رشتہ ہے‘ استاد شاگرد کو فرش سے عرش تک پہنچاتا ہے جبکہ استاد اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتا جب تک شاگرد یعنی طالب علم اپنے استاد محترم سے تعاون نہیں کرتا۔ ہر طالب علم پڑھنا چاہتا ہے۔ اگر وہ پڑھنے سے کتراتا ہے تو ضرور اس کی کوئی وجہ ہو گی زیادہ تر طالب علم تشدد اور ڈانٹ کی وجہ سے پڑھنا نہیں چاہتے۔رواں دور میں تشددکرنے پر بڑی حد تک قابو پا لیا گیا ہے لیکن دیہی علاقوں میں یہ سلسلہ کم تو ہوا لیکن وہاں مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکا، اساتذہ کو چاہئے کہ وہ اپنے طالب علموں کوڈانٹ وتشدد سے نہیں بلکہ پیار سے سمجھانے کی کوشش کریں کیونکہ ضرورت سے زیادہ ڈانٹ ڈپٹ اور ضرورت سے زیادہ لاڈ پیار بھی بچوں میں بگاڑ پیدا کرتا ہے۔
ماہم جاوید
فاطمہ جناح یونیوسٹی چونا منڈی لاہور