اسلام آباد(محمد صلاح الدین خان )آئینی و قانونی ماہرین نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ کی روشنی میں اخلاقی طور وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کو عہدہ سے استعفیٰ دے دینا چاہئے ،ان کے استعفیٰ سے جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ، پانامہ لیکس فیصلہ میں صادق امین کے حوالے سے فیصلہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے جے آئی ٹی کی رپورٹ آنے تک محفوظ کرلیا گیا تھا ، تین رکنی خصوصی عمل درآمد بنچ نے فریق وکلاء سے جے آئی ٹی رپورٹ پر تحفظات طلب کیئے ہیں ،جب عدالت خود تحفظات طلب کرتے ہوئے کیس کی سماعت کررہی ہے تو پھر میاں نواز شریف کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ چیلنج کرنے کا جواز ختم ہوجاتاہے ، وکلاء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم سمیت پانامہ لیکس میں آنے والے دیگر ناموں کو ای سی ایل میں ڈال دیا جائے،جے آئی ٹی کی سفارشات کی روشنی میں سپریم کورٹ وزیراعظم میاں نواز شریف ، حسن نواز، حسین نواز اور مریم نواز کے خلاف احتساب عدالت میں ریفرنس دائر کرنے یاضابطہ فوجداری کے تحت مقدمہ درج کرنے کا حکم دے سکتی ہے جبکہ دستیاب شواہد کے پیش نظر وزیر اعظم کی نااہلیت کا حکم بھی جاری کیا جاسکتا ہے۔ نوائے وقت سے گفتگو کرتے ہوئے بار صدر رشید اے رضوی نے کہا کہ وزیر اعظم کو اپنے عہدہ سے استعفیٰ دیکر رہی سہی عزت بچا لینی چاہیے ، پوری دنیا کی نظریں پاکستان میں پانامہ کیس کے فیصلہ پر لگی ہوئی ہیں جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ کو انٹر نیشنل میڈیا سے خصوصی طور پر ہائی لائٹ کیا ہے وکلاء برادری نے عدالت عظمیٰ کے کسی بھی فیصلہ پر اس کی روح کے مطابق عمل درآمد کروانا ہے ۔ بار کے جنرل سیکرٹری آفتاب باجوہ نے کہا کہ وزیراعظم سمیت دیگر کے نام ای سی ایل میں ڈال دینے چاہیں ، وزیراعظم اخلاقی طور پر اپنے عہدہ پر رہنے کا جواز کھو چکے ہیں اگر وہ استعفیٰ نہیں دیتے وکلاء برادری ان کے خلاف احتجاج کا سلسلہ تیز کردے گی ایکشن کمیٹی کا آئندہ اجلاس 14جولائی کو ہوگا، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن پانامہ کیس میں ملوث دیگر 450 افراد کے خلاف پٹیشن عدالت عظمیٰ میں دائر کرے گی تاکہ آف شورز کمپنیوں کے ذریعے جمع کی دولت واپس ملک میں لائی جاسکے ان 450 افراد کے خلاف بھی جے آئی ٹی سے تحقیقات کروانے کی استدعا کی جائے گی ۔ سابق بار صدر کامران مرتضیٰ نے کہا کہ شریف فیملی جے آئی ٹی میں اپنے ملکی غیر ملکی اثاثوں کی منی ٹریل ثابت نہیں کرسکی ہے عوامی عدالت بھی شریف فیملی کو مسترد کرچکی ہے ۔ ایڈووکیٹ محمد صدیق خان بلوچ نے کہا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ سفارش ہے عدالت اس پر عمل درآمد کی پابند نہیں مذکورہ تین رکنی بنچ ہی وزیراعظم کی نااہلیت کا حکم دے سکتا ہے جسکا جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ کے فیصلہ سے کوئی تعلق نہ ہوگا ، ان کا کہنا تھا کہ یہ تاثر غلط ہے کہ موجودہ تین رکنی بنچ کا ایک رکن بھی وزیراعظم کے خلاف نااہلیت کا فیصلہ دیتا ہے تو سابق دو ججز کے ساتھ ملک فیصلہ کن ججز کی تعداد تین ہوجائے گی ۔ عمران بلوچ ایڈووکیٹ نے کہا تین رکنی پانامہ بنچ نئی بنیادوں پر فریق وکلاء کے دلائل سننے کے بعد فیصلہ دے گا ،جے آئی ٹی رپورٹ میں شریف فیملی کے خلاف دستیاب شواہد کی روشنی میں، احتساب عدالت یا ضابطہ فوجداری کے تحت ٹرائل کورٹ میں مقدمہ کے اندراج کی تجویز دی گئی ہے جسے رد اور منظور کرنا سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کا صوابدیدی اختیار ہے ۔ ذوالفقار احمد اور چوہدری قمر ایڈووکیٹ نے کہا کہ وزیراعظم کے عہدہ سے مستعفی ہونے کے بعد کوئی اور شخص وزیراعظم کے عہدہ پر آسکتا ہے یہ ان ڈور تبدیلی ہوگی جس سے جمہوریت کے تسلسل کو کوئی خطرہ نہیں۔
آئینی قانونی ماہرین