مشہور و معروف افسانہ نگار، ایڈیٹر، ڈرامہ نویس اشفاق احمد نے ایک نشست میں دلچسپ قصہ سنایا، ان کا فرمانا تھا کہ چند دوست میرے پاس آئے اور کہا کہ وزیراعظم نواز شریف آپ کو بہت یاد کرتے ہیں انہیں آپ کا ٹی وی سیریز ’’تلقین شاہ‘‘ بہت پسند ہے انہوں نے آپ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔ آپ سے درخواست ہے کہ تھوڑی دیر کے لیے ہمارے ساتھ وزیراعظم کی رہائش گاہ ماڈل ٹائون، چلئے۔ اشفاق صاحب نے پہلے تو کہا کہ میں ان کا پڑوسی ہوں وہ جب چاہیں یہاں آسکتے ہیں لیکن جب دوستوں کا اصرار بڑھا تو میں ان کے ساتھ چلا گیا۔ وہاں جو منظر دیکھا وہ بڑا دلچسپ اور شاہانہ تھا۔ میرے دوستوں نے وزیراعظم کی توجہ میری جانب دلائی اپنے درباریوں کے اصرار پر انہوں نے میری طرف دیکھا اور فرمایا کہ انہیں گریڈ 17 دیا جائے۔ جس پر میرے دوستوں نے کہا کہ حضور! وہ تو پہلے ہی مرکزی اردو سائنس بورڈ کے سربراہ ہیں اور گریڈ 21 کے افسر ہیں۔ اس پر وزیراعظم نے کہا کہ پھر جو وہ چاہیں ان کی خواہش پوری کی جائے یہ کہہ کر دوسری طرف متوجہ ہو گئے میں نے اپنے دوستوں سے اجازت چاہی واپس گھر آگیا۔ ایک اور قصہ کچھ اس طرح ہے کہ جب میاں صاحب دوسری مرتبہ جب وزیراعظم بنے تو انہیں مبارک باد دینے اس وقت کے آرمی چیف جہانگیر کرامت صاحب ان کے گھر ماڈل ٹائون پہنچے خاطر توضح کے بعد جنرل صاحب نے مشورہ دیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو دوسری بار یہ عزت بخشی ہے۔ اس بار آپ عہد کریں کہ ملک و قوم کی خدمت کریں گے۔ اُن باتوں سے اجتناب برتیںجو پہلے دور میں آپ کے لئے شرمندگی کا باعث بنی تھیں۔! یہ مشورہ سننے کے بعد جنرل صاحب کو ایک قیمتی گاڑی کا تحفہ پیش کیا گیا اور کہا گیا کہ اب تو وہ وقت آیا ہے جب ہم اپنے نقصان کی تلافی کرنا پسند کریں گے۔ جنرل صاحب نے کار کا تحفہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ دو قصے بیان کرنے کا مقصد یہ ہے کہ آپ میاں صاحبان کا مائنڈ سیٹ سمجھ سکیں۔ محترمہ مریم نواز پہلے ہی کہہ چکی ہیں کہ ہم حکمران خاندان ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ مملکتِ پاکستان کے نظام اسلامی جمہوری کی بجائے بادشاہت میں تبدیل کر دیا جائے اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ 8 سالہ سعودی عرب میں قیام کی وجہ سے شاہانہ شب و روز دیکھنے اور شہزادوں کے قریب رہنے کی وجہ سے دل میں پہلے سے موجود خواہشیں بیدار ہوئیں۔ دوسری دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد مملکت کے تمام شعبوں پر دسترس حاصل کرنے اور بیوروکریسی کے ذمہ دار افسروں کو کنٹرول میں لینے کے بعد عدلیہ اور افواجِ پاکستان کو بھی اپنے طابع کرنے کا مشن سامنے تھا یہ خطرناک کھیل تھا لیکن بقول شخصے خطرہ مول لیے بغیر کوئی بڑا کام نہیں ہوسکتا، اس کوشش میں جنرل مشرف سے سامنا ہوگیا اور پھر جو کچھ ہوا آپ کے علم میں ہے۔ تاآنکہ 2013ء کا الیکشن آگیا۔ دو تہائی اکثریت حاصل کرنے کی کوشش میں پورا الیکشن دھاندلی زدہ ہوگیا۔ ہر پارٹی نے دھاندلی کا شور مچایا۔ چنانچہ عمران خان کے دھاندلی کے خلاف احتجاج اور 128 دن طویل دھرنے اور شدید کشمکش کے دوران ’’پانامہ لیکس‘‘ سامنے آگیا ان کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا وہ تو اس خیال میں تھے کہ آنے والے چند مہینوں میں اقتدار اعلیٰ بلاشرکت غیرے، ان کی جیب میں ہوگا ۔ پانامہ لیکس میں سپریم کورٹ نے نااہل قرار دے کر کرپشن کے باقی معاملات نیب کو بھجوا دیئے جہاں ان کی تفصیلی چھان پھٹک ہوئی۔9/10 مہینے احتساب عدالت میں چلنے والے ریفرنسز میں سے ایک کا فیصلہ آچکا ہے۔ جس میں نواز شریف صاحب کو 10 سال، مریم بی بی کو 7 سال اور داماد کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ میاں صاحب اور مریم بی بی نے احتساب عدالت کا فیصلہ لندن کے ایون فیلڈ اپارٹمنٹس میں بیٹھ کر سنا واپس آنے اور نہ آنے کی طویل ذہنی کشمکش اور وکلاء کے مشورے کے بعد فیصلہ ہوا کہ پاکستان واپس جانا ضروری ہے بصورت دیگر خطرہ ہے پوری شریف فیملی ہمیشہ کے لیے سیاست سے آئوٹ نہ ہو جائے، اِدھر کیپٹن صفدر صاحب سزا سننے کے بعد روپوش ہوگئے۔ نیب نے ان کی گرفتاری کے لیے تین ٹیمیں بنائیں، دو دن انہوں نے گرفتاری نہ دی تیسرے دن پتہ چلا کہ وہ راولپنڈی میں ایک ریلی کی قیادت کرتے ہوئے لیاقت باغ پہنچیں گے جہاں وہ گرفتاری پیش کریں گے۔ صدر مسلم لیگ جناب شہباز شریف سابق وزیر اطلاعات مریم اورنگ زیب نے اچانک اپنی اپنی طے شدہ پریس کانفرنسیں منسوخ کر دیں۔ جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مسلم لیگ کے قائد اور موجودہ صدر شہباز شریف نے حکومت کو دبائو میں لانے کے لیے کوئی حکمت عملی تیار کی ہے جس کی تفصیل شائع ہوچکی ہے۔ پہلی کوشش راولپنڈی میں کیپٹن صفدر کی گرفتاری میں مزاحمت کے لیے ریلی کا انعقاد تھا جو بُری طرح ناکام ہوا۔ اس کے نتیجے میں کیپٹن صفدر پر ایک اور مقدمہ بن گیا اور دوسرے پناہ دینے اور مزاحمت کرنے والوں پر بھی مقدمات بن گئے ہیں۔ اب دوسری کوشش یہ ہے کہ راجہ ظفر الحق سینئر راہنما مسلم لیگ ن کی سربراہی میں لاہور ایئر پورٹ پراستقبال کی تیاری کی جائے۔ تمام ٹکٹ ہولڈرز اور کارکنوں کو ہدایت جاری کر دی گئی ہے کہ وہ بڑی تعداد میں لاہور ایئرپورٹ پر جمع ہوں اور ایک جلوس کی صورت میں میاں صاحب اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کولے کر اسلام آباد پہنچیں جب کہ نیب پہلے ہی ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کر چکی ہے اور حکمت عملی بھی ترتیب دی جاچکی ہے کہ انہیں جہاز سے اترتے ہی اڈیالہ جیل کیسے لے جانا ہے ۔ راولپنڈی میں حنیف عباسی اور مقامی پولیس کے تعاون سے ریلی نکال کر تین چار گھنٹے کیپٹن (ر) صفدر کو ریلی میں گھما کر دفعہ 144 اور الیکشن کمیشن ضابطوں کو ہوا میں اڑانے کا تجربہ سامنے ہے۔ پنجاب کے عبوری وزیراعلیٰ کا امتحان ہے کہ وہ عدالتی احکامات کی تعمیل کرواتے ہیں یا خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔ جہاں تک مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور ان کی دختر مریم نواز کا تعلق ہے وہ تو اپنی زندگی کی آخری لڑائی لڑ رہے ہیں انہیں اس بات سے غرض نہیں کہ مسلم لیگ ن الیکشن جیتے گی یا نہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب نے طے کر لیا ہے کہ ’’ہم تو ڈوبے ہیں…‘‘ اس موقع پر سابق صدر اور ان کی ہمشیرہ فریال کے خلاف منی لانڈرنگ کے کیس کا سامنے آنا بھی بڑا سوال ہے۔ یہ مقدمہ بھی نیا نہیں دس بارہ سال پرانا ہے اس کو الیکشن کے بعد بھی سنا جاسکتا تھا پھر وقت کا انتخاب کس نے کیا ہے؟ وہ پہلے ہی ایک بار ’’اینٹ سے اینٹ‘‘ بجانے کی دھمکی دے چکے ہیں اگر اس وقت زرداری صاحب کو خطرہ محسوس ہوا تو وہ میاں نواز شریف سے دوبارہ بغلگیر ہونے میں دیر نہیں کریں گے بہرحال آنے والے چند دنوں میں اصل گیم سامنے آ جائے گی۔ ہمیں پوری امید ہے کہ پاکستانی قوم یہ سازشیں بھی انشاء اللہ ناکام بنا دے گی۔!