پاکستان کی بنیاد دو قومی نظریے پہ رکھی گئی اور طے یہ پایا کہ مسلمان ایسے خطے میں رہیں گے جہاں وہ مذہبی آزادی اور دو قومی نظریے کے اطلاق کے ساتھ اور مطابق زندگی گزاریں گے۔ اسلامی مملکت پاکستان کے مسلمانوں کا اہم عقیدہ ختم نبوت پہ یقین ہے بلکہ کرہ ارض کے تمام مسلمانوں کا اس عقیدے پہ یقین کرنا فرض اولین ہے، قرآن پاک ہماری آخری کتاب ہے اس کے حرف بہ حرف پہ یقین ہمارا ایمان ہے، ہم اس نبی پاک حضرت محمدمصطفیﷺ کے امتی ہیں جس نے ظلمت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے اجالا نکالا اور ہمارا ایمان ہے کہ: ؎
جس پہ لطف وکرم خدا کردے
اسے شیدائے مصطفی کردے
ان کی تابانی جہاں آرا
حق وباطل جدا جداکردے
جو بھی ملک کرہ ارض پہ اپنی آزادی کی جنگ جیتتا ہے اس کی تاریخی قربانیاں مورخین رقم کرتے ہیں آج پاکستان جیسی اسلامی جمہوریہ بھی تاریخ کے اہم موڑ پہ کھڑی ہے تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ فروغ اسلام کے سلسلے میں صوفیائے کرام، مشائخ وعلماء کرام نے تاریخی طور پر جو اہم اور درخشاں کردار ادا کیا اس کی مثال نہیں ملتی ، یہ مسلمانوں کی روحانی قوت، علماء ومشائخ سے صوفیاء کرام اور اپنے آبائواجداد کے سلسلوں سے گہرے ربط اور تعلیم وتربیت کا شاخسانہ ہے ہم نہ صرف ختم نبوت پہ ایمان رکھتے ہیں بلکہ اس مملکت جمہوریہ کے منشور میں بھی ختم نبوت کے ماننے والوں کا عُہدوں کوقبول کرنے سے پہلے حلف دینا لازمی امر ہے۔آج جو ہمارا وطن عزیز ملکی انتشار وخلفشار اور فرقہ واریت کے مہلک مسائل میں جکڑتا چلاجارہاہے اور ہماری نوجوان نسل کی مسلمانیت بے شمار وجوہات کی بنا پہ زبوں حالی کا شکار نظرآتی ہے جوکہ ہمارے لیے نہ صرف پریشانی کا باعث ہے بلکہ اس بے راہ روی سے جو اسلام سے دوری کے مہلک جراثیم جو بزرگان دین کی تربیت سے نابلد اور اسلامی احکامات سے دوری کے باعث پیدا ہورہے ہیں اس کے انتہائی خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔
مملکت خداداد کے رہنما کا ہرعمل، ہرلفظ، ہر امر اور بیان اسلام کے دائرے کار میں ہونا نہایت ضروری ہے ذرا سی زبان کی لغزش کردار میں تھوڑا سا جھول بھی ناقابل معافی سمجھا جاتاہے جس طرح اللہ کی پکڑ کا خوف ایک مرد مسلمان کو گناہ صغیرہ اور کبیرہ سے دور رکھتاہے اسی طرح اسے ایک رہبر ورہنما کو کوئی بھی متنازعہ بیان یا ذو معنی بات کہنے سے(اپنے مذہب ودین وطن اور قوم کے بارے میں) گریز کرنا ازحدلازم ہے وگرنہ صوفیاء کرام علمائے دین اور مشائخ عظام کے متحدہوکر کسی بھی فتویٰ کی زد میں آنے سے وہ نہیں بچ سکتا۔ہمارے ملک میں فرقہ واریت کی جنگ نے اس وطن کو پہلے ہی بہت نقصان پہنچایاہے مگر دہشت گردی کے سدباب کے ساتھ ساتھ کچھ عرصے سے فرقہ واریت کے ناروا رویوں کے رجحانات میں کمی آئی ہے اب لمحہ فکریہ یہ ہونا چاہیے کہ ایسے تصادم جو دینی، مسلکی، روحانی، اور اخلاقی رویوں کو پامال کرنے کے زمرے میں آتے ہیں ان سے نہ صرف گریز کرنا ہوگابلکہ پاکستان کے دو قومی نظریے اور پاکستان کا مطلب کیا لا الا الہ الااللہ کے مصداق اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ کسی بھی بیانیے کو علماء کرام کے فتویٰ کو مدنظر رکھتے ہوئے شخص کو سزا وار ٹھہرایاجائے۔
سیسہ پلائی ہوئی دیوار میں دراڑیں ڈالنے والے دشمنان وطن اور دشمنان دین چاہے وہ کسی بھی فرقہ سے ہو کسی بھی عہدے کے حامل ہوں قوم کبھی اسے معاف نہیں کرسکتی، ہمارا مستقبل ہماری ترقی دین اور اس کے پانچ ارکان آخری کتاب قرآن پاک اور آخری نبی حضرت محمد مصطفی ؐ کے احکامات کی پاسداری میں مضمر ہے آج ایک نئے فیصلے کا وقت ہے انتہائی نازک موڑ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے سامنے ہے اس میں تمام عوامل کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے ووٹ کے حق کا استعمال دو قومی نظریے اور ختم نبوت کومدنظر رکھتے ہوئے کریں۔امیر ملت سجادہ نشین علی پورہ سیداں شریف، پیر سید منور حسین شاہ جماعتی سجادہ نشین پیر مستان شاہ پشاور اور دیگر علمائے مشائخ نے کہا ہے کہ آئندہ الیکشن ختم نبوت کو مدنظر رکھ کے لڑے جائیں، ختم نبوت الائنس کے رہنمائوں نے پاکستانی عوام سے بھی استدعا کی ہے کہ پاکستان کے مفاد کو مدنظر رکھنے والوں اور ختم نبوت پہ راسخ یقین رکھنے والوں کو اس ملک کی باگ دوڑ تھمائیں، ان علماء مشائخ کی بات سے قطع نظر اگر ہم مسلمان ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں تو اس بات پہ ہمیں شک پیدا کرنے کی نوبت ہی نہیں لانی چاہیے، ہم تو وہ تہذیب واقدار سے محبت کرنے والے اخلاقیات اور اعلیٰ کردار کے داعی ہیں جس کا اقبال اپنے استاد کی طرف پیٹھ کرکے نہیں چلاکرتا تھا جس کے پیر کرم شاہ الازری نے روضہ رسول پہ بیٹھ کر سیرت النبیؐ کی جلدیں لکھیں جس قوم کے عاشق رسول حضرت اویس کرنی نے نبی پاک کے دندان مبارک کی شہادت کا سن کر اپنے تمام دندان توڑ دیے اور جس قوم کے عاشق رسول حضرت بلالؓ آپ کے وصال کے بعد اذان دیتے تو شدت غم جدائی سے بے ہوش ہوجاتے۔ہمارے بزرگان دین اکابرین ، اساتذہ کرم کے ساتھ ساتھ والدین کو اپنے گھروںمیں پلنے والی نوجوان نسل کو راہ حق کا داعی بنانے میں اہم کردار ادا کرنا چاہیے اللہ اور اس کے نبیؐ کو منافقین سخت ناپسند تھے مگر آج ہمارے درمیان منافقین کا گروہ موجود ہے ان میں سے کچھ آج دین کا نام لے کر صرف اپنے مفاد اور کرسی کی خاطر خود کو عاجز اور پرہیزگار ظاہر کرینگے، مت مانیے! مت جانیے! مت سمجھئے کہ آپ ان کو ووٹ دینگے تو اپنے وطن سے انصاف کریں گے جن کو پرکھ چکے، ان کو کیا پرکھنا، دودھ کا جلا تو چھاج بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے ویسے بھی آنکھوں دیکھی مکھی کون نگلتا ہے آپ پرکھئے مت بدل ڈالیے چہرے اور انتخاب کیجئے باکردار لوگوں کا۔
جس نے بھی ذِکر نبی دل میں اتارا ہوگا
عرش پر اس کی ہی قسمت کا ستارا ہوگا
کوچہ ٔ نبی ﷺ کی خاک کہو مجھے
Jul 12, 2018