کون سے رنگ میں امید کا منظر کھینچوں۔ پورے ملک میں انتخابی سرگرمیاں عروج پر ہیں‘ بھانت بھانت کی بولیاں‘ قسم قسم کے جھوٹ اور وعدے‘ روشنی کا تعاقب کرتے کرتے اندھیروں کے سینے میں اتر جانے والے لوگوں کے لئے مبالغے ہی مبالغے‘ بیانیے آپس میں گتھم گتھا اور انتخابی پنڈالوں میں تقریریں جیسے جنگ کا سماں۔ اب آپ ہی بتائیے خانماں برباد ووٹر کہاں جائے؟ کس کو ووٹ دے اور کسے نہ دیں اس وقت پورے ملک کا ووٹ بنک پرانے وعدوں کا مارا ہوا نئے وعدوں کا جائزہ لے رہا ہے۔ پھر مشکل یہ ہے کہ تین بڑی سیاسی جماعتیں اک دوجے کیخلاف لفظی جنگ لڑ رہی ہیں۔ اپنے منشور اور لائحہ عمل کی بات بیس فیصد اور مخالفین کیخلاف سنگین سے سنگین الزامات اسی فیصد۔
اس صورت حالات میں جہاں ووٹر کی حالت بہت پتلی اور لیڈر تگڑا ہو کر گرج برس رہا ہے‘ اسٹیبلشمنٹ اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ شتر بے مہاروں کو سیدھی راہ پر لگانے والا کوئی نہیں‘ کسی بھی سیاسی جماعت کے اندر معتدل مزاج قائدین موجود ہی نہیں‘ لہذا جس کا جو دل چاہے کر رہا ہے۔ زبانوں میں شائستگی نام کو بھی نہیں‘ جمہوری رویے مفقود ہو گئے ہیں اور اوپر سونے پر سہاگہ الیکٹرانک میڈیا ہر منفی بات کو اچھال کر مزے لیتا ہے۔ تضادات بیانی کے ساتھ الجھے ہوئے اس ماحول میں 25 جولائی کو حتمی طورپر ووٹر کیا فیصلے کرے گا؟ اس کا نفسیاتی اور سیاسی طورپر جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ہمارے انتخابی ماحول میں تین قسم کے ووٹرز موجود ہیں۔ نمبر ایک کارکن ووٹر‘ جو اپنی سیاسی جماعت کے ساتھ رضاکارانہ یا ذاتی و اجتماعی مفادات کے تحت کام کرتا رہتا ہے اور الیکشن میں کامیابی کو اپنی منزل قرار دیتا ہے۔ نمبر دو کسی بھی سیاسی جماعت کے ساتھ ذہنی و فکری ہم آہنگی کا حامل ووٹر‘ جو بسااوقات موروثی طورپر بھی کسی جماعت کی حمایت کا دم بھرتا ہے۔ نمبر تین معتدل مزاج ووٹر جو حقائق پر نظر رکھتے ہوئے ووٹ دینے کا فیصلہ کرتا ہے۔ ایسا ووٹر اپنی حمایت ایک سیاسی جماعت سے دوسری جماعت کی جانب آسانی سے منتقل کر لیتا ہے اور اس کام میں مشکل کا شکار بھی نہیں ہوتا۔
اب ہم یہاں موجود انتخابی ماحول میں موجود تین بڑی سیاسی جماعتوں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف سے متعلق متذکرہ بالا ووٹرز کی حمایت و اعانت کا محتاط جائزہ لیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں بڑی تعداد کارکن ووٹروں کی ہے‘ جو موروثی یا غیر موروثی طورپر پارٹی کے بنیادی منشور روٹی کپڑا اور مکان کے ساتھ نظریاتی وابستگی رکھتے ہیں‘ یہ ووٹر ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہیدہ کے شیدائی اور انکی طرز سیاست کے مداح ہیں‘ لیکن درمیان میں زرداری دور انکے مزاج کو نہیں بھاتا‘ کیونکہ یہ سمجھتے ہیں آصف زرداری نے پارٹی کے اساسی نظریات کو اپنے ذاتی مفادات کے تحت نقصان پہنچایا‘ یہ لوگ ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہیدہ کے نام پر ووٹ دینا پسند کرتے ہیں لیکن آصف زرداری کو ووٹ دینا نہیں چاہتے‘ چونکہ ایسے نظریاتی ووٹرز کی پیپلز پارٹی میں ریکارڈ تعداد موجود ہے‘ جو اپنے خاندانوں‘ برادری اور قبیلے کے ووٹ بھی پارٹی کو دلا سکتے ہیں‘ اس لئے آصف زرداری نے کمال مہارت سے بلاول زرداری کو پارٹی چیئرمین بنا کر ووٹ بنک کے اس حصے کو محفوظ بنانے کی اپنے تئیں کوشش کی ہے‘ جس کے کافی حد تک مثبت نتائج نکلنے کی توقع ہے۔ دوسری قسم کے ووٹرز کی ایک نفری بھی پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک میں موجود ہے‘ لیکن نظریاتی اور فکری ہم آہنگی کا دم بھرنے والے کارکن بے نظیر بھٹو شہیدہ کے بعد خاصی حد تک کم ہو چکے ہیں‘ برعکس اسکے معتدل مزاج ووٹرز کی بڑی تعداد پیپلز پارٹی کے ساتھ اختلاف رکھتی ہے‘ اسکے باوصف ایسے لوگوں کی ایک محدود تعداد ہی پارٹی کو ووٹ دیگی چنانچہ اس وقت پیپلز پارٹی کی مجموعی جیت کا انحصار زیادہ تر کارکن ووٹروں کی حمایت پر ہے‘ جبکہ نظریاتی ووٹ بھی اس میں شامل کر لئے جائیں تو پارٹی کا اس صورتحالات میں کلین سویپ کرنا مشکل ہو گا‘ البتہ ایک پریشر گروپ کی صورت جیت ممکن ہو گی‘ پارٹی سے اختلافات کے باعث اندرون سندھ کے ووٹرز بھی خاصی تعداد میں نالاں ہیں‘ جن کا انتخابی نتائج پر ضرور اثر پڑے گا‘ رہی بات کراچی کی تو اس ضمن میں بھی حسب سابق پیپلز پارٹی کو ایم کیو ایم سمیت مختلف پریشر گروپس سے نبردآزما ہونا پڑیگا۔ آئیے اب مسلم لیگ ن کی موجودہ انتخابی صورتحالات کا جائزہ لیتے ہیں اس پارٹی کے سربراہ میاں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ اور ضیاء الحق کے بل بوتے پر قومی سیاست میں دخیل ہوئے اور بعدازاں ان کی سیاست کا محور ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہیدہ کی کھلی مخالفت قرار پایا۔ سیاسی یکسانیت سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے نواز شریف کی جماعت کو پے درپے ووٹ دیکر وزیراعظم بنایا جبکہ پرویز مشرف کی بغاوت کے بعد جلاوطنی کا کارڈ انکے کام آیا اور وہ پھر وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ مسلم لیگ ن اور نواز شریف کے سیاسی نظریات میں جو یکے بعد دیگرے تبدیلیاں ہوئیں‘ اسکی بناء پر یہ کہنا تو حقائق کے برعکس ہو گا کہ انکے کارکن اور ووٹرز نظریاتی ہیں‘ تاہم آج بھی انکے ہمراہ دو قسم کے ووٹرز موجود ہیں‘ ایک وہ جن کے تمام تر سیاسی مفادات انکی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہیں اور دوسرے جو نواز شریف اور انکے خاندان کو مظلوم قرار دیتے ہیں۔ کیپٹن (ر) صفدر تو پہلے ہی جیل پہنچ گئے‘ اب نواز شریف اور مریم نواز جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہونگے تو یہ انکے ووٹ بنک میں اضافے کا شگون ہو گا۔ نفسیاتی سطح پر ہمارے ووٹرز کا ایک جذباتی رویہ ہمدردی کا بھی ہے‘ اسکے شواہد متعدد مرتبہ سامنے آ چکے ہیں‘ لہذا اگر نواز شریف اور انکی سیاسی جماعت نے کلین سویپ کیا تو اس میں ان کی مبینہ مظلومیت اور قید و بند کی سختیاں کارفرما ہوں گی۔ قرائن سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کے ساتھ اس وقت معتدل کارکن ووٹرز زیادہ تعداد میں موجود نہیں‘ بلکہ جو ہیں وہ حد درجہ جذباتی ہیں۔ رہی بات تحریک انصاف کی تو یہ پاکستان کی وہ سیاسی جماعت ہے جو اپنے جماعتی نصب العین سے ہٹ کر لیڈر شپ کے فیصلوں اور فرمودات پر زیادہ چلتی ہے۔ عمران خان قومی خوشحالی اور ترقی کا منشور لیکر چلے جو آگے بڑھ کر نواز شریف اور انکے خاندان کی مخالفت بلکہ کہنا چاہئے‘ دشمنی میں بدل گیا۔ نواز شریف اور دوسرے درجے پر آصف زرداری کی مبینہ کرپشن کو انہوں نے اپنی طرز سیاست کا سلوگن بنا لیا‘ جس کے نتیجے میں نوجوانوں اور دیگر جذباتی لوگوں کی ایک غالب تعداد ان کی حمایت کرنے لگی اس لئے عمران خان اور ان کی پارٹی کے ووٹ بنک کا ایک بڑا حصہ ان کی طرف سے نواز شریف کی مبینہ کرپشن پر آواز اٹھانے کا حمایتی ہے‘ یہ ووٹ انہیں ضرور ملیں گے‘ رہے نظریاتی کارکنوں کے ووٹ تو یہ تعداد بہت محدود ہے‘ البتہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ان کی ہمنوا ہے اور کہا جاتا ہے جس تحریک میں نوجوان نسل شامل ہو جائیں وہ کامیاب ہو جاتی ہے تاہم یہ کہنا عین حقائق کے مطابق ہو گا کہ عمران خان اور ان کی جماعت کو اس مرتبہ قوم ووٹ دے گی‘ لیکن کلین سویپ شاید نہ کر سکیں‘ مخلوط حکومت بنے گی‘ لگتا ہے مخلوط حکومت میں آزاد ممبران اسمبلی اور دیگر چھوٹی جماعتوں کو شامل کیا جائے گا‘ لیکن ایک سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے اسمبلی میں بیٹھ کر گٹھ جوڑ کر لیا تو پھر کیا ہوگا؟