قصیدہ گوئی

بادشاہ قصیدہ گو کے کلام سے خوش ہوا تو حکم دیا کہ اس کا منہ اشرفیوں سے بھر دیا جائے ۔ دست بستہ عرض کی کہ اس سے تو میرا دم گھٹ جائے گا ۔ زمین کا ٹکڑامرحمت فرما دیجئے اور اسے دو گائوں کی زمینداری عطا ہوگئی ۔ قصیدہ گوئی کسی نہ کسی شکل میں ہر دور میں رائج رہی ۔ زمانہ جدید میں یہ کام نثر نگاروں نے سنبھال لیا اور بقدر حصہ و حبثہ محنت کا ثمر پاتے رہے ایک معروف لکھاری آل شریف کو کچھ اس قدر بھا گئے کہ سرکار دربارمیں اعلی عہدوں کے اہل ٹھہرے۔ ہم عصر ان سے رشک کم اور حسد زیادہ کرتے تھے مگر جب عدالت بیچ میں آگئی اور نسبت برطرفیوں اور ریکوریوں تک پہنچی تو سب کچھ ایک ڈرائونا خواب بن گیا اس سے اور کچھ ہو نہ ہو، یہ ضرور ہوگا کہ آئندہ کیلئے خوشامدیوں کو کان ہو جائیں گے۔

ریاض احمد سید…… سفارت نامہ

ای پیپر دی نیشن