وفاقی محتسب برائے ہراسیت بمقام کار کشمالہ طارق نے کہا ہے کہ خواتین جنہیں کام کی جگہوں پر ہراسیت کا سامنا ہے وہ آگے بڑھیں‘ انصاف ملے گا۔ بی بی سی کو دیئے گئے انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ وہ میشا شفیع اور علی ظفر کے درمیان سوشل میڈیا پر جاری بحث پر کسی قسم کی رائے کا اظہار نہیں کرسکتیں کیونکہ یہ معاملہ ابھی عدالت تک نہیں پہنچا۔ وہ اس پر اس وقت تک رائے نہیں دے سکتیں جب تک تحقیقات مکمل ہو کر فیصلہ سامنے نہ آجائے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہراسگی کا شکار مرد ہوں یا خواتین‘ خاموش رہنا حل نہیں ہے۔ سوشل میڈیا کے ذریعے‘ اپنی بات دوسروں تک پہنچائی جاسکتی ہے۔ تاہم انصاف کے حصول کیلئے درست پلیٹ فارم ‘ ملک بھر میں قائم خصوصی عدالتیں ہیں ، جو کام کی جگہوں پر ہراسیت سے متعلق شکایات سنتی ہیں۔ صرف ایک ماہ میں ہی انہیں مختلف اداروں سے ہراسگی سے متعلق ساٹھ سے زائد شکایات موصول ہوئی ہیں جنکی تحقیقات جاری ہے۔ ہراسگی کے زیادہ تر مقدمات خواتین کی جانب سے سامنے آئے ہیں۔ تاہم شکایت کنندگان میں مرد بھی شامل ہیں۔ جنہیں اپنی خاتون یا مرد باس یا ساتھی ہراساں کررہے ہوتے ہیں۔ کردارکشی بذات خود ہراسیت کی ایک قسم ہے۔ اس قانون میں ترامیم کی گنجائش ہے۔ اس مقصد کیلئے تجاویز پہلے ہی متعلقہ فورم پر بھیجی گئی ہیں۔ اب اس قانون میں خواجہ سرائوں کو ہراساں کئے جانے کے مقدمات بھی سنے جاسکیں گے جس کیلئے ترمیم کی جارہی ہے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ وفاق کی سطح پر ایک ’’وفاقی محتسب برائے ہراسیت بمقام کار‘‘ کی تعیناتی کی گئی ہے جس میں خواتین کے ایسے کیسز کی تحقیقات ہوگی جن میں ان کو اپنے دفتر‘ فیکٹری‘ ہسپتال‘ تعلیمی ادارے میں کام کے دوران جنسی ہراسیت کا سامنا کرنا پڑا ہو گا ان کی آبرو ، و عزت کے تحفظ کیلئے وفاقی حکومت نے ایک ایسا ادارہ بنایا ہے، جس میں ان کی دادرسی کی جاسکے گی اور ان کی عزت و ناموس کے تحفظ کیلئے فوراً قانون حرکت میں آئے گا۔
خاص طور پر خواتین تو ہوتی بھی ، بقول (COVENTRY PATMORE ) (WEAKER VESSEL) ٍَیعنی ایک نازک برتن کی مانند۔ ظاہر ہے ان میں حساسیت ُبہت زیادہ ہوتی ہے۔ ان کی اس فطرت کو پیش نظر رکھتے ہوئے ، ایسے اقدامات کا اٹھایا جانا لازم ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ’’ الرجال قوامون علی النسائ‘‘ گویا مرد‘ عورتوں پر ’’قوام‘‘ ہیں۔ گویا تمام تر گھر سے باہر کی ذمہ داری مرد حضرات ہی پوری کرنے کیلئے شب و روز محنت میں جتے ہوئے ہوتے ہیں۔ تاہم آج کل کے دور میں ‘ انتہائی مجبوری کے عالم میں‘ اگر کسی خاتون کو بھی،گھر جلانے کیلئے اپنے مرد کا ہاتھ بٹانے کی خاطر گھر سے باہر نکلنا پڑے تو اس کی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا اول تا آخر ریاست کی ذمہ داری ہے۔
بہرکیف قانون کی حیثیت اپنی جگہ لیکن اصل چیز جو انسان کو رذائل یعنی انسانیت سے گری حرکتوں سے روکتی ہے‘ وہ ایمان ہے اور ایمان کی بھی وہ شکل جو حدیث جبریل میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سکھائی۔ اس میں اور باتوں کے علاوہ سب سے نمایاں بات جس کا ذکر کیا گیا وہ تھی کہ ’’احسان‘‘ کیا ہے!گویا ایمان کا درجہ اگر ’’احسان‘‘ کی صورت اختیار کرے گا تو پھر عدالتوں کے جھنجھٹ سے بہت حد تک چھٹکارا نصیب ہوگا۔ یہاں پر ’’احسان‘‘ سے مراد یہ ہے کہ تیرے ایمان کی کیفیت ایسی ہو کہ تو اللہ تعالیٰ تو دیکھ رہا ہے۔ شریعت کے احکام کو نافذ کیا جائے جرائم خود بخود معدوم ہونا شروع ہوجائینگے۔ قانون بھی بناتے ہیں خوف کیلئے۔ اسلامی سزائیں نافذ ہوں تو خودبخود جرائم میں کمی آ جائیگی بلکہ ایک وقت آئے گا کہ برائیاں معدوم ہوجائیں گی تاہم خیروشر کا مقابلہ تو ’’ازل سے ہے اور ابد تک‘‘ جاری رہے گا۔ جرائم میں کمی تو لائی جاسکتی ہے لیکن ’’نفس‘‘ اور ’’شیطان‘‘ نے بھی تو اپنا کام کرکے دکھانا ہے ۔ اسی لئے اسکے سامنے بند باندھنے کیلئے ایمان کو ’’درجہ احسان‘‘ تک پہنچانا ازبس لازم ہے۔بہرکیف معاشرہ کے استحکام کیلئے۔ اخلاقی اقدار (MORAL VALUES) ہی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ہماری تجویز ہے کہ ’’معاشرہ‘‘ کی عملی تطہیر کیلئے قانون سازی کی جائے ’’اخلاقی اقدار‘‘ کو فروغ دیا جائے اور وہ بھی صرف اور صرف ہوگا ، صحیح تعلیم کے ذریعے ۔ یاد رہے ! ریاست کی حفاظت‘ قانون سازی کے ذریعے اور ’’معاشرہ‘‘ کی حفاظت‘ اخلاقی اقدار کے ذریعے ہی ممکن ہے۔