پاکستان نے زمبابوے میں 3 ملکی کرکٹ T20سیریز جیت کر نہ صرف پاکستانی قوم کے دل جیت لئے بلکہ بہت عمدہ پرفارمنس کا مظاہرہ کیا ہے۔ گو زمبابوے کی ٹیم کا شمار دنیا کی کمزور ٹیموں میں کیا جاتا ہے البتہ آسٹریلیا کی ٹیم بھی T20 میں ابھی نئی ہی سمجھی جا رہی ہے کیونکہ بال ٹیمپرنگ کی وجہ سے آسٹریلیا کے 3 سینئر کھلاڑی پہلے ہی ٹیم سے باہر ہو چکے ہیں۔ آسٹریلیا نے پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے 183 سکور بہت اچھا اور بڑا سکور کر دیا تھا اور خاص کر جب پاکستان نے اننگز کے آغاز میں پہلے ہی اوور میں دو وکٹ گنوا دیں تو پاکستان کی جیت کے امکانات تقریباً ختم ہو چکے تھے کہ مردِ مدیان فخر زمان نے کریز پر آتے ہی کھیل کا نقشہ بدل دیا اور 43 گیندوں پر 91 رنز بنائے۔ فخر زمان چیمپئنز ٹرافی کے فائنل میں بھی سنچری بنا کر اپنے آپ کو بڑے میچوں کا کھلاڑی ثابت کر چکے ہیں۔ میرے نزدیک فخر زمان ابھی تک T20 اور ون ڈے میچوں مں اپنی کارکردگی سے دنیائے کرکٹ میں خوش اسلوبی سے اپنا مقام بنا رہے ہیں۔ فخر زمان میں جتنا ٹیلنٹ سامنے آیا ہے میرے نزدیک فخر زمان کو ٹیسٹ میچوں میں بھی چانس دینا چاہئے۔ کچھ ماہ پہلے پاکستانی ٹیم کے دورہ انگلینڈ کے دوران ایک موضع آیا تھا کہ فخرزمان کو ٹیسٹ کرکٹ میں چانس ملنا چاہئے تھا مگر ہمارے سلیکٹر حالات کی بجائے ذہنی پستی کا شکار ہو جاتے ہیں اور کسی کھلاڑی پر لیبل لگا دیا جاتا ہے کہ فلاں کھلاڑی T2، فلاں ون ڈ کرکٹ اور فلاں ٹیسٹ کرکٹ کا کھلاڑی ہے مگر دنیائے کرکٹ میںکئی کھلاڑیوں میں ایسا ٹیلنٹ ہوتا ہے کہ وہ تینوں فارمیٹ میں کھیل بھی سکتے ہیں اور پرفارمنس بھی دے سکتے ہیں۔ میرے نزدیک ایک دورفخر زمان کا بھی آئے گا اور یہ پاکستانی کرکٹ کیلئے بہت بہتر ہو گا کہ فخر زمان کو ٹیسٹ، ون ڈے اور T20 میں کھلانا چاہئے گو پاکستان کے اندر کوئی انٹرنیشنل میچ نہیں ہو رہے پھر بھی پاکستان کی پرفارمنس قابل رشک ہے اور پاکستان نے پچھلے 26 میچ کھل کر 22 میں فتوحات حاصل ک ہیں اور پاکستان T20 کے چارٹ پر نمبر ون پر موجود ہے جوکہ بہت بڑی پرفارمنس ہے اور حیران کن طور پر پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے کے باوجود نئے کھلاڑیوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہو رہی ہے جس کا کریڈٹ پی سی بی کو جاتا ہے۔ میں جب بار بار یہ لکھتا ہوں کہ پچھلے 9 سالوں میں پاکستان کے اندر انٹرنیشنل کرکٹ نہیں کھیلی جا رہی تو اس کا ایک ہی مطلب ہوتا ہے کہ ہوم سیریز میں بھی انٹرنیشنل کھلاڑی پرفارمنس دے کر اوپر آتے ہیں پھر وہ ملک کے اندر اپنے کو گروم کرکے باہر کے ممالک میں کھیل کر مکمل انٹرنیشنل کھلاڑی بنتے ہیں اور اپنے ملک میں کھیل کر ہی بہتر سے بہتر پرفارمنس دے کر دنیا سے لوہا منواتے ہیں مگر 9 سال پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ نہ ہونے کے باوجود ورلڈ کلاس کھلاڑی بننا معجزے سے کم نہیں ہوتا۔ پاکستانی کھلاڑی ہر سیریز میں ایک دو کھلاڑی پیدا کر رہے ہیں۔ اپنے ملک میں کھیلنا، اپنی وکٹوں پر، اپنے کراؤڈ میں پرفارم کرنا آسان ہوتا ہے جبکہ غیر ممالک میں جا کر کھیلنا بہت مشکل کام ہے مگر داد دوں گا پاکستانی کوچز، کپتان، کھلاڑیوں کو کہ وہ باہر کے ممالک میں جا کر نہ صرف عمدہ پرفارمنس دیتے ہیں بلکہ پاکستان کی جیت کا تناسب بہت بہتر ہے وگرنہ دنیائے کرکٹ کو دیکھ لیں وہ اپنے ملک میں عمدہ پرفارم کرتے ہیں جبکہ باہر کے ممالک میں انکی پرفارمنس مشکوک ہوتی ہے۔