لودھراں جن دنوں ضلع ملتان کا حصہ تھا اور ملتان کی تحصیل کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا ان دنوں اس شہر میں ایک نوجوان اسسٹنٹ کمشنر تعینات ہوا۔ نوجوان افسر تھا اور غصہ اس سے سنبھالے نہیں سنبھلتا تھا۔ لودھراں پہنچتے ہی اس اے سی کی اپنے ہی دفتر کے ایک کلرک سے اَن بَن ہو گئی۔ وہ کلرک بیچارا جتنا ہی بہتر کام کرتا اتنا ہی صاحب اسے روزانہ جھاڑتا۔ آخر و کلرک زچ ہو کر صاحب کی سفارش ڈھونڈنے تک آ گیا اور اے سی کے ایک رشتہ دار کے پاس پہنچ کر اپنی ساری کہانی سناتے ہوئے اس کلرک نے کہا جناب! مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ میرا قصور کیا ہے؟ اور صاحب مجھے دیکھتے ہی غصہ میں کیوں آ جاتے ہیں؟ وہ سفارشی کلرک کی بات سن کر بڑا حیران ہوا اور اے سی کے پاس گیا۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد وہ سفارشی اصل موضوع کی طرف آیا اور کہا میاں! ہم نے اختلافات پر تو جھگڑے اور مقدمات دیکھے ہیں لیکن بغیر کسی وجہ کے یہ پہلی لڑائی دیکھی ہے جو تم نے اپنے دفتر کے فلاں کلرک سے لے رکھی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ تم روزانہ اس بندے کو ڈانٹتے ہواور اس کا قصور بھی نہیں بتاتے؟ اسسٹنٹ کمشنر نے بے مقصد چائے کی پیالی کو گھماتے ہوئے کہا یار سچی بات یہ ہے کہ میرا اس کلرک کے ساتھ کوئی جھگڑا ہی نہیں لیکن اس کا چہرہ مجھے بھاتا ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھار لڑائیاں‘ جھگڑے اور نفرتیں یوں بھی شروع ہوتی ہیں کہ لوگوں کے چہرے ایک دوسرے کو بھاتے نہیں ہیں۔
صدیق خان کانجو لودھراں کے سیاستدان اورعلی پور کانجوکے بڑے زمیندار تھے۔ میاں نواز شریف کی کابینہ میں وزیر خارجہ بھی رہے اور پراسرار انداز میں قتل کر دئیے گئے۔ انہوں نے لودھراں کو ملتان سے الگ کر کے ایک ضلع بنوا دیا۔ لودھراں کے ضلع بننے میں انتظام کی بجائے سیاست کا بڑا ہاتھ تھا جبکہ کانجو مرحوم اور میاں نواز شریف کی دوستی نے لودھراں کو ضلع بنانے میں بڑا کردار ادا کیا۔ ایک دن کسی دوست نے صدیق خان کانجو سے پوچھا لودھراں ایک پسماندہ تحصیل تھی آپ نے اسے ضلع کیوں بنوا دیا؟ تومسٹر کانجو نے جواب دیا کہ ہم کانجو ملتان کے گیلانیوں کو بھاتے ہی نہیں تھے اس لئے ہم نے خود کو گیلانی صاحبان سے الگ کر لیا۔
پاکستان میں جمہوریت ہمیشہ ایک معمہ رہی ہے اوریہ گتھی ابھی تک نہیں سلجھ رہی کہ ہمارے ہاں جمہوریت کیوں کامیاب نہیں ہوتی؟اور کیا وجہ ہے کہ عوام بڑے شوق سے انتخابات میں حصہ لیتے ہیں۔ ووٹ ڈالتے ہیں لیکن حکومت بننے کے کچھ عرصہ بعد وہی ووٹر جو انتخاب کی گہما گہمی کا حصہ بنتے ہیں سڑکوں‘ بازاروں اور اپنی محفلوں میں اپنی اس جمہوری حکومت کا شکوہ کرتے دکھائی دیتے ہیں جس حکومت کو انہوں نے بڑی چاہت سے منتخب کیاہوتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ پاکستان میں جمہوریت کے ناکام ہونے کی کئی وجوہات موجود ہوں لیکن ہم یہ کہتے ہیں ہماری ریاست میں جمہوریت کی ناکامی کا سب سے بڑا سبب خود سیاسی جماعتوں کی غیر جمہوری سوچ ہے اور ان کا معاشرے میں آمرانہ سلوک ہے۔ پاکستان میں تمام سیاسی جماعتیں جمہوریت کے نعرے لگاتی ہیں اور اس کا زور و شور سے پرچار کرتی ہیں لیکن عملی طور پر سیاسی جماعتوں کے وجود کے اندر جمہوریت نہیں ہوتی۔ پاکستانی سیاسی جماعتوں پر ایک فرد‘ ایک خاندان یا ایک گروہ کی گرفت ہوتی ہے اور پارٹی کے اندر قابض گروپ کی آمرانہ حکومت قائم ہوتی ہے۔ جبکہ سیاسی جماعت کے باقی لوگ صرف حکم کی تعمیل کرنے کے لئے حاضررہتے ہیں اورکسی کی ذاتی رائے کو اہمیت نہیں ہوتی۔ یہ وہ غیر جمہوری طریقہ کار ہے جو سیاسی جماعتوں کے اندر اچھی قیادت کو ابھرنے دیتا ہے اور نہ ہی آگے آنے دیتا ہے۔ اس ساری بحث کا لب لباب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کو ملک میں جمہوریت بھاتی ہی نہیں ہے اور یہ خود ہی ہی جمہوریت کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں اور بعض جماعتیں بیمار ہیں جبکہ ان میں اصلاح کی ضرورت ہے اور ان کو علاج کی ضرورت ہے۔ پاکستان تحریک انصاف ایک ایسی سیاسی جماعت ہے جسے نوجوان نسل چاہتی ہے اور ادھیڑ عمر سنجیدہ نسل پی ٹی آئی کو صرف سوچتی ہے۔ اس جماعت کے چیئرمین عمران خان نیازی کرکٹ کی دنیا کے مشہور کھلاڑی آج پاکستان کے مشہور سیاستدان بھی ہیں اس جماعت کو یہ گلہ ہے کہ 2013ء کے عام انتخاب میں اس کا حق مار لیا گیا ہے۔ پی ٹی آئی نے بطور احتجاج اسلام آباد میں ایک طویل دھرنا دیا لیکن ہاتھ کچھ نہ آیا۔ اس سیاسی جماعت میں قوت فیصلہ کی ثابت قدمی اور مستقل مزاجی موجود نہیں ہے۔ صبح کوئی فیصلہ اور شام کو کوئی اور فیصلہ‘ بار بار اپنا رخ تبدیل کرنے کی وجہ سے پی ٹی آئی کے اندر پریشانی اور بے قراری موجود ہے اور یہ پارٹی دھڑے بندی کا شکار ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں لوٹے سیاستدان ایک عذاب ہیں۔ یہ ہر نئی پارٹی میں گھس کر اس پارٹی کو برباد کر دیتے ہیں اور اقتدار پر قابض رہتے ہیں۔ عوام سوچ بدلیں اور لوٹوں کو ووٹ نہ دیں۔ آج کل کے نوجوان یہ کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ گیدڑوں کی فوج کی قیادت اگر شیر کرے تو یہ گیدڑ فوج جنگ جیت جاتی ہے۔ جناب! یہ بات ہی غلط ہے شیر کی تہذیب الگ ہے اور گیدڑ کا جہان اور ہے اور ان دونوں درندوں کا کوئی تال میل نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں جب تک اصلاح نہیں ہو گی یہاں جمہوریت نہیں پروان چڑھ سکے گی اور 2018ء کا الیکشن بھی 2013ء والے الیکشن جیسے ثمرات لائے گا۔