ایک وقت تھا ۔ موسم گزرنے کے بعد کپڑوں پر" سیل" لگ جاتی تھی۔ ہر برانڈ ۔بڑے کاروباری مراکز اِس سیل کا بطور خاص اہتمام کرتے تھے ۔ پہلے اچھا مال بکتا تھا کیونکہ بھلا وقت تھا۔ بھلے لوگ تھے ۔ "سیل "میں فروخت بڑھنے کو "ہوس" نے اُچک لیا۔ پھر ایسا ہوا کہ ہر اچھا بُرا مکس کرنے کے بعد" سیل میلہ" سجانے کے لیے خصوصی طور پر سستے میٹریل سے سامان ۔ کپڑے تیار کروائے جانے لگے ۔ مزید طمع بڑھی تو سال کی بجائے 6"ماہ" والا سلسلہ چل پڑا جو کم ہوتے ہوے 3-2" ماہ "کے دورانیہ پر آگیا ۔ اِس کے بعد تو موسم کی بندش رہی نہ معیار کی گارنٹی ۔ کسی بھی شہر میں چلے جائیں ۔ کوئی چھوٹا بازار ہے یا مہنگا شاپنگ سنٹر ۔" سیل" کا مال ضرور ملے گا۔ کم قیمت میٹریل ۔ ہلکی کوالٹی ۔ نقصان دہ چیزوں کی آمیزش ۔ اگرچہ قیمت پڑھنے میں کم ۔بِکری بہت زیادہ مگر اصل حقیقت کہ بنانے کا خرچ بہت کم ۔" سیل "عام ہوگئی۔ بہتات قدر۔ اہمیت کم کر دیتی ہے۔ بے رُت سیل کا ٹرینڈ اتنا بڑھا کہ گلی ۔ کوچوں میں کھڑی فروٹ ریڑھی والوں نے بھی شام کو سیل کے کاغذی بورڈ آویزاں کر دئیے۔کپڑے سے لیکر سبزی ۔ اناج تک" سیل" کی مقبولیت دیکھ کر حکومت پیچھے کیسے رہتی ۔ اُس قوم کو "ٹیکس مصنوعات" بیچنے کا سوچا گیا جو سینکڑوں اقسام کے ٹیکسوںمیں پہلے سے پھنسی ہوئی ہے۔ اِس قوم کا ہر بچہ "فائلر" ہے۔ پیدا ہوتے ہی پیسے دیکر" برتھ سر ٹیفکیٹ "بنواتا ہے جتنی زندگی بسر کرتا ہے۔ ٹیکس بھرتا رہتا ہے۔ مرنے کا تاوان بھی "موت سر ٹیفکیٹ" کی صورت ادا کرتا ہے۔ قبر خریدی جاتی ہے۔ کفن خریدا جاتا ہے ۔ جنازہ مولوی کو پیسے دیکر پڑھایا جاتا ہے۔ تدفین بھی پیسوں کی ادائیگی کے بغیر ممکن نہیں ۔ یہ قوم "نان فائلر "کیسے کہلا سکتی ہے ؟ چاہے غریب ہے یا امیر ایک ماچس کی ڈبیہ خریدتا ہے تو لاتعداد ٹیکسوں کی ادائیگی کر کے۔ پچھلی سیاسی اشرافیہ ۔ ذخیرہ اندوز ۔ منافع خور مافیا نے وہ نہیں کیا جو اِس سرکار نے کر دیا ۔ اتنی بڑی تبدیلی ۔ عوام کو براہ راست دھمکیاں اِس انداز میں کہ ہاتھوں میں ڈنڈے پکڑنے کی ضرورت نہیں پڑی الفاظ ہی لوہا بن کر عوام پر برسنے لگے ۔" حکومتی Tax Sale "۔ سال میں دوسری مرتبہ ۔ دکھائی دیتا ہے کہ اب چاروں موسموں کے مطابق سکیم چلے گی۔قطعاً درست نہیں کہ تاجر ۔ عوام ٹیکس دینے سے گریزاں ہیں ۔ طریقہ کار بہت غلط تھا ۔ اب کتنے جمع ہوئے ۔ مستند اعداد و شمار سے قطعی لا علم ہیں ہاں یہ ضرور جانتے ہیں کہ عوامی تشویش ۔ بے چینی کسی بڑے انتشار ۔ فساد کا باعث بن سکتی ہے ۔ کیونکہ عوام سبھی کچھ برداشت کر سکتی ہے۔ اور" 75 سالہ" تاریخ شاہد ہے مگر پیٹ پر ٹانگ تو کوئی بھی شخص اپنے سگے بہن ۔ بھائی کی برداشت نہیں کرتا۔ وکیل کا دفتر تھا یا ٹیکس ریکوری یونٹ ۔ ہجوم اتنا کہ قدم رکھنے کی جگہ نہیں ۔ اُوپر سے وقت اتنا کم کہ وکیل کو سر کُھجانے کی فرصت نہیں تھی۔ ہرجگہ خوب رش ضرور تھا پر نفوس کی تعداد کامیابی کی نوید نہیں کہلا سکتے۔ خوف کا موسم سرد ہوتا ہے۔ جو خون منجمد کر دیتا ہے۔ دھمکی کا بیج نہیں پُھوٹتا ۔ زمین پر مسلسل ہل چلایا جائے تو وہ بھی بنجر ہو جاتی ہے۔ یہی صورتحال کا سامنا ہے۔ جن لوگوں نے ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اُٹھایا وہ دوسری کھڑکی کُھلنے پر مزید عتاب میں ہیں کہ ظاہر کردہ اثاثوں کی "Title deed" جمع کروائیں ۔ کاروباری سر گرمیاں تقریباً مفلوج ہیں ۔ملک کے اکثریتی علاقوں میں ہڑتال ہے پر نوٹس لینے کی بجائے سخت الفاظ کا غیر ضروری ۔ بے محابا استعمال جاری ہے جو معاشی حالت کو مزید دگرگوں بنانے کا موجب بنے گا ۔ "وزیراعظم صاحب" نے بجا اور بارہا فرمایا کہ کل تک سائیکلوں پر گھومنے والے آج بڑی گاڑیوں میں فراٹے بھر رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اشرافیہ تو مکمل سہولتوں کے پروٹوکول میں آزادانہ گھوم پھر رہی ہے اور سائیکلوں والے سڑکوں پر خواری ۔ ننگ کاٹ رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کو ووٹ دیا۔ درست کہ قوموں کی زندگی میں ایسا وقت آتا ہے مگر یہ قوم تو 75" سالوں "سے ایسے ہی وقت میں مقید ہے۔ لمحہ موجود کا عام آدمی بہت پریشان ہے کیونکہ ساری زد۔ پالیسیوں کے نفاذ کا مکمل ملبہ عام آدمی کے کندھوں پر آپڑا ہے۔ یہ ہمارے عوام کی فطرت ہے کہ جلد ہی رُخ بدل لیتی ہے جب محبوب اپوزیشن کو بھی حکومت مل جائے ۔ بعینہ شو روم سے گاڑی نکلتے ہی10-20"ہزار "قیمت کم ہو جاتی ہے۔ مقبولیت کا گراف بھی انتہائی نچلے لیول پر جا پڑا ہے۔ ضرورت ہے کہ نظام کی خامیوں کو درست کیا جائے ۔ قوانین موجود ہیں ۔ بنیاد موجود ہے۔ ستم ظریفی ملا حظہ فرمائیں ۔" انکم ٹیکس افسر" جب سروس میں ہوتا ہے تو حکومت کو بتاتا ہے کہ عوام سے ٹیکس کیسے اکٹھا کرنا ہے۔ ریونیو کیسے بڑھانا ہے ؟ ریٹائر ہونے کے بعد" کنسلٹینسی فرم" کھول کر پھر عوام کو بتاتا ہے کہ ٹیکس کیسے کم ادا کرنا ہے۔ کہاں سے چھپانا ہے۔ یہ ہماری رائے نہیں ایک عوامی سطح کی ملاقات کا احوال ہے۔ مزید براں پہلے لوگ ریٹائر ہو کر ذاتی "فرمز" قائم کرتے تھے اب حالت یہ ہے کہ دورانِ ملازمت اکثریت نے اپنی دوکانیں سجالی ہوئی ہیں ۔ اب اِس کو کون روکے گا َ؟ کیا یہ کرپشن نہیں ۔ چوری نہیں ۔جرم نہیں ۔ یہ سب جرائم کا مرکز ہے بلکہ قومی خیانت بھی ہے۔ صرف ایک محکمہ نہیں ۔ایسا بیسیوں میں ہو رہا ہے۔ ہم تو صرف اطلاعات کی بنا پر بات کر رہے ہیں ۔ حکومت کے پاس تو ثقہ شواہد ہونگے ۔" وزیر اعظم صاحب" آپ بلاشبہ دیانتدار شخص ہیں ۔ قوم کی خواہش ہے کہ اپنی سیاسی جدوجہد کے مرکزی نکتہ کرپشن مافیا کی پکڑ پر اولین توجہ مرتکز کریں تاکہ عوام کو ریلیف ملے۔