سمجھ نہیں آتی کہ بھارتی لیڈرز اکثر بے سروپا اور غیرذمہ دارانہ باتیں کیوں کرتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ جب یہ زیادہ پی لیتے ہیں تو اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھتے ہیں اورلا یعنی باتیں شروع کر دیتے ہیں جو حقیقت سے اتنی ہی بعید ہوتی ہیں جتنا زمین سے آسمان۔ بھارتی لیڈروں کا سب سے پسندیدہ موضوع ’’ پاکستان ‘‘ ہے۔ میرا خیال ہے کہ انہیں خواب بھی پاکستان کے ہی آتے ہیں۔ پاکستان ان کے اعصاب پر سوار ہے۔ جب بھی یہ زیادہ پی لیتے ہیں تو بھارتی وزیر اعظم سمیت پاکستان کو دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں ۔انکے خیال میں پاکستان ان کی دھمکیوں سے مرعوب ہو کر تھر تھر کانپنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ ہے بھارت کی شاندار قیادت جن کی زندگیوں کا واحد مقصد شاید پاکستان کے خلاف دھمکیاں دینا ہی قومی خدمت ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ دھمکیاں پاکستان کے لئے نہیں بلکہ بھارتی جنتا کے لئے ہوتی ہیں تا کہ وہ یہ سمجھیں کہ ہمارے لیڈرز بڑے دلیر ہیں جو پاکستان کو بھی آنکھیں دکھاتے ہیں۔ ان کی بہادری کی واحد مثال پاکستان کو دھمکیاں دینا ہے جیسا کہ مودی صاحب نے 26فروری کو بالا کوٹ پر حملہ کر کے فرمایا کہ پاکستان کا جیش محمد کا مدرسہ تباہ کردیا ہے اور علماء سمیت تین سو طلباء کو شہید کر دیا گیا ہے۔ پاکستان کو سبق سکھا دیا گیا ہے ۔بھارتی جنتا پاکستان کے خلاف کسی قسم کی کاروائی سے اتنے خوش ہوتے ہیں جتنے کسی اور بات پر خوش نہیں ہوتے۔ اسی لئے جو بھی بھارتی لیڈر پاکستان کے خلاف بات کرتا ہے وہ بھارتیوں کی آنکھ کا تارا بن جاتا ہے۔ مودی کو پتہ تھا کہ بالا کوٹ کی بھارتی بمباری سے اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو کوئی جانی نقصان نہیں ہوا سوائے ایک کوا اور تین درختوں کے پھر بھی مودی صاحب نے اپنی اس کاروائی کو بڑھا چڑھا کر الیکشن میں اس طرح پیش کیا کہ جیسے اس نے خدا نخواستہ پاکستان فتح کر لیا ہو اور یہ بیانیہ اسکی جیت کا سبب بنا۔
مودی کے بیانیہ کو دیکھتے ہوئے اب آرمی چیف کو بھی دورہ پڑ گیا ہے کہ وہ کیوں پاکستان کو دھمکی دینے میں سیاستدانوں سے پیچھے رہے ۔معلوم ہوتا ہے یہ بیان دیتے ہوئے اس نے بھی زیادہ چڑھا رکھی تھی ۔ فرمایا:’’ ہم پاکستان اور چین کو بیک وقت شکست دے سکتے ہیں‘‘۔ واہ لالہ جی واہ۔ اسی لئے اسلام میں شراب حرام ہے کہ انسان اپنے ہوش و حواس سے محروم ہو جاتا ہے۔ اگر آپ ہوش و حواس میں ہوتے تو یقیناً ایسی بیوقوفانہ بات نہ کرتے۔ یہ تو وہی بات ہوئی کہ ایک چوہے نے ایک قطرہ شراب پیا تو پچھلی ٹانگوں پر کھڑے ہو کر گرج کر بولا۔ کدھر ہے بلی؟ اسے میرے سامنے پیش کرو میں اسکی بوٹی بوٹی کردونگا۔ آپ ایک آرمی جنرل ہیں ۔دنیا کی تیسری بڑی فوج کے کمانڈر ہیں آپ چوہے والی حرکت تو نہ کریں۔ ایسا کرنا آپ کو زیب نہیں دیتا۔ اور پھرپاکستان اور چین کوئی کیک کے ٹکڑے تو نہیں جنہیں آپ اٹھا کر منہ میں ڈال لیں گے۔ پہلے آپ اپنی فوج کی تو خبر لیں جو آپ کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ فوج کے پاس نہ تو مناسب وردی ہے اور نہ ان کو انسانوں والا کھانا ملتا ہے۔ فوج میں بڑھتی ہوئی خود کشیوں سے ظاہر ہے کہ فوج میں سب ٹھیک نہیں ہے۔ مایوسی کی شکار فوج کیسے لڑے گی؟ پھر آپ اپنے ماضی پر بھی نظر پھیریں ۔آپ نے چین سے لڑ کر کیا حاصل کیا اور پاکستان سے لڑ کر کون سے تیر مارے۔ دونوں ممالک کے ساتھ جنگوں کا تجزیہ پیش خدمت ہے۔
چین کے ساتھ بھارت کی ڈیڑھ جنگ ہوئی یعنی ایک مکمل جنگ اور ایک بڑی سرحدی جھڑپ۔ ہند چینی جنگ1962 میں نیفاNEFA کے علاقے میں لڑی گئی۔ اس جنگ سے پہلے بھارت اور چین کے بڑے اچھے تعلقات تھے۔ ہند چینی بھائی بھائی ایک مشہور نعرہ تھا۔ پھر بھارت کی رعونت پسندی نے حالات اتنے خراب کئے کہ دونوں ممالک کی فوجیں آمنے سامنے آ گئیں۔ بھارتی وزیر اعظم جواہر لعل نہرو نے عالمی لیڈروں کی طرح بیان دیا : ’’ میں نے اپنی فوج کو حکم دیا ہے کہ چینیوں کو اٹھا کر باہر پھینک دیں لیکن جب جنگ ہوئی تو بھارت کو شرمندگی کے سوا کچھ حاصل نہ ہوا۔ بھارت کی تقریباً آدھی فوج ماری گئی یا زخمی ہوئی اور علاقہ چینیوں کے قبضے میں چلا گیا جو انہوں نے بعد میں خود ہی واپس کردیا۔ اس موقع پر چینی وزیر اعظم چو این لائی نے کلاسک فقرہ کہا تھا : ’’ بھارت کو پتہ نہیں اگر چینی مل کر ہمالیہ پر پیشاب بھی کردیں تو ہندوستان ڈوب جائیگا‘‘۔ لڑائی کے دوران بھارتی ریڈیو آکا شوانی اپنے ریڈیو پر بڑی متاثر کن خبریں نشر کرتا تھا۔ ہم پاکستانی سن کر ہنستے تھے۔ مثلاً ’’آج ہمارے بہادر سورما چینیوں سے بہادری سے لڑتے ہوئے پیچھے بھاگ آئے‘‘۔ بھارتی فوج کا مذاق ساری دنیا میں اڑایا گیا۔ یہ شکست بھارتی وزیر اعظم نے اتنی دل پر لی جو بالآخر اسکی موت کا سبب بنی۔ بھارت نے دوسری جنگ ابھی پچھلے سال تبت اور لداخ بارڈر پر لڑی جہاں چینی پکی سڑک بنا رہے تھے اور بھارتی اسے اپنا علاقہ قرار دیتے تھے۔چینیوں نے ایسا سبق سکھایا کہ بھارتی سورماوہ علاقہ ہی چھوڑ آئے۔ چینیوں نے روڈ مکمل کی۔ ابھی بھارتی وزیر اعظم چانکیائی انداز میں چین سے دوستی بنا کر مسئلہ حل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے پاکستان کے ساتھ وہ کئی جنگیں لڑ چکا ہے۔ تفصیل حسب ذیل ہے ۔پاکستان کے ساتھ پہلی جنگ یکم اکتوبر1947سے شروع ہوئی جہاں شمالی علاقہ جات کے گلگت سکائوٹس نے گلگت کے ریذیڈنٹ برگیڈ یرگنسارا سنگھ کو قید کر لیا اور گلگت و بلتستان کی آزادی کا اعلان کردیا۔ پھر یہ لوگ کشمیر آرمی سے لڑتے لڑتے لیہہ تک پہنچے اور 72000 مربع میل علاقہ آزاد کر ایا۔ ادھر کشمیر کی آزادی کے لئے قبائلی لشکر آیا جو بارہ مولا تک پہنچا جہاں سے سری نگر محض اڑھائی گھنٹے کا سفر تھا۔ وہ بارہ مولا میں نجانے کیوں چاردن کے لئے رک گئے۔اس عرصہ میں بھارتی فوج سری نگر لینڈ کر گئی۔ پھر بھی اس لشکر نے تقریباً 55000 مربع میل علاقہ آزاد کر ایا۔1965 میںتمامتر تیاریوں کے باوجود آپ کی فوج نے پاکستان فوج سے شکست کھائی۔ آپکالاہور جمخانہ میں خوشی منانے کا جذبہ اپنی حسرتوں کی موت خود مرگیا۔ 1971میں مشرقی پاکستان یہاں سے 1200میل دور تھا جہاں ہمارے ٹروپس کی تعداد محض دو ڈویژن تھی جن کے پاس نہ ائیر فورس تھی نہ آرٹلری نہ ٹینکس۔ ان دو ڈویژنوں پر آپ نے 12ڈویژن سے حملہ کیا اور یہ ڈیڑھ لاکھ مکتی باہنی اس کے علاوہ تھی۔ اسے جنگ نہیں کہا جاسکتا۔ان حالات کے باوجود پاکستانی فوج بہت بہادری سے لڑی۔ اسوقت کے ایسٹرن کمانڈ کے بھارتی چیف آف سٹاف جنرل جیکب نے لکھا :’’ پاکستانی فوج ایک ایک انچ زمین کے لئے لڑی۔ مسلسل پانی اور دلدل میں چل چل کر انکے پائوں گل چکے تھے۔ نیند سے انکی آنکھیں بوجھل تھیں پھر بھی نہ کوئی سپاہی بھاگا نہ کسی نے ہمت ہاری‘‘۔بھارتی آرمی چیف آف سٹاف جنرل مانک شا نے بھی پاکستانی فوج کے جذبے اور جنگی صلاحیت کی بہت تعریف کی تھی۔ یہ ایک غیر متوازن جنگ تھی جس کے لئے آپ خوشی کے شادیانے بجانے کے قطعاً حقدار نہیں۔ نہ ہی کسی عسکری تجزیہ نگار نے آپ کی جنگی صلاحیت کی تعریف کی ہے۔ اس سے اگلی جنگ کارگل حملہ تھا۔ کارگل جنگ میں پاکستانی ٹروپس نے کارگل پر مکمل قبضہ کیا۔ اگر ہمارے وزیراعظم سرنڈر نہ کرتے تو کارگل آپ کو دوبارہ کبھی نہ ملتا۔ آپ کی بڑھک اپنی جگہ۔ آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ یہ نہ مشرقی پاکستان ہے نہ 1971۔ اب اگر آپ مزید کوئی بیوقوفی کریں گے تو آپ کے ساتھ وہی کچھ ہوگا جو بالا کوٹ پر حملے کے بعد ہوا۔ یاد رکھیں پی کر دھمکیاں دینا آسان ہے لیکن ان پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔
بھارتی آرمی چیف کو پھرمالیخولیاہوگیا
Jul 12, 2019