اخلاقی قدریں اور وزیر اعلیٰ پنجاب

Jul 12, 2019

ربیعہ رفیق

جس معاشرے میں اخلاقی قدروں کی پاسداری کی جاتی ہو وہ حقیقی معنوں میں ترقی یافتہ اور سلجھا ہوا معاشرہ کہلاتا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ آپ معاشی حوالے سے کس مقام پر کھڑے ہیں لیکن انسانی اور اخلاقی بنیادیں مضبوط نہ ہوں تو کسی بھی سطح کی ترقی مشکوک ہو جاتی ہے۔ جب آپ کسی کا احترام نہیں کریں گے تو وہ کبھی بھی اپنی پوری قوت صرف کر کے اپنے کام پر توجہ نہیں دے گا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ آپ اس کا مورال بلند کریں، اس کے اندر کام کرنے کی ترغیب کو متحرک کریں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی کئی باتوں سے دنیا کو حیران کر رہے ہیں اور رفتہ رفتہ لوگوں کے دلوں میں اچھی خاصی جگہ بناتے جا رہے ہیں۔ جس طرح انہوں نے گزشتہ دنوں اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے، جس میں وزیر قانون راجہ بشارت، چیف سیکرٹری یوسف نسیم کھوکھر، آئی جی پنجاب عارف نواز خان، سیکرٹری فنانس عبد اللہ خان سنبل اور دیگر اعلیٰ حکام موجود تھے، میں یہ فرمایا کہ نئے پاکستان میں پرانا رویہ یعنی دوسروں کی تذلیل کرنے والا رویہ قابل قبول نہیں ہو گا۔ اب ہر شہری قابل احترام ہے اور ہر موقع پر اس کی عزت نفس کا خیال رکھنا پولیس اور دیگر محکموں کا فرض ہونا چاہئے۔ عوام کے جا ن و مال کا تحفظ فرض کے ساتھ ساتھ کارِ ثواب بھی ہے۔ یہ وہ سنہری باتیں ہیں جنہوں نے مجھے بھی بے حد متاثر کیا اور میں سمجھتی ہوں کہ معاشرے میں جس تربیت اور اخلاقی تعلیم کی کمی تھی حکومت نے اس طرف توجہ مبذول کرنا شروع کر دیا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام اوپر والی سطح سے شروع ہوں تبھی اس کے ثمرات تمام طبقوں تک جاتے ہیں۔ جب اعلیٰ افسران اور حکومتی نمائندے اعلیٰ اخلاقی اقدار کا مظاہرہ کریں تو دیگر افراد بھی ایسا کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اور یوں معاشرہ اصلاح کی طرف بڑھتا ہے۔ ہر شخص کو دین کا علم حاصل کرنا ضروری ہوتا ہے کیوں کہ دین اخلاقی قدروں کا منبع بھی ہوتا ہے لیکن ہر شخص صوفی نہیں ہوتا۔ اسی طرح ہر شخص تصوف کا پیروکار بھی نہیں ہوتا۔ صرف وہ لوگ جو دینی تعلیم کو اپنے اندر جذب کر کے یعنی اس پر عمل کر کے خود کو رول ماڈل کے طور پر ساری دنیا کے سامنے پیش کرے اسے آپ تصوف کا پیروکار کہہ سکتے ہیں۔ تصوف وہ علم ہے جس سے نفس کی صفائی، اخلاق کی پاکیزگی، باطنی اصلاح، اعلیٰ اخلاقیات کا درس اور دل کو غیر اللہ سے پاک کرنا مقصود ہے۔ تصوف انسان کو رب کی پہچان کروانے کا نام ہے۔ یہی راستہ انسان کی تکریم کی طرف لے جاتا ہے کیوں کہ جو رب سے محبت کرتے ہیں وہ انسانوں سے نفرت نہیں کر سکتے بلکہ انسانوں کی عزت ان کے ایمان میں شامل ہو جاتی ہے۔ تصوف کے بارے میں ایک دوسری رائے یہ ہے کہ تصوف انسانیت کا دوسرا نام ہے۔ دنیا میں اس وقت بہت سے ایسے لوگ موجود ہیں جو کہ دین اسلام کے قائل نہیں لیکن پھر بھی وہ اپنی ذات کی نفی کر کے انسانیت کی فلاح و بہبود کیلئے کام کرتے ہیں اور لوگوں کو نیک کام کرنے اور برائیوں سے بچنے کی تلقین کرتے ہیں۔ تصوف کا سب سے اہم نظریہ وحدت الوجود ہے۔ اس نظریے کے مطابق اس ساری کا ئنات کو بنانے والی ایک ہی ہستی ہے۔ ہمارے اردگرد جتنی بھی چیزیں موجود ہیں اسی کی پیدا کردہ ہے۔ فرعون، شداد، قوم عاداور ثمود کی طرف دیکھ کہ ہمیں عبرت پکڑنی چاہیے کہ جھوٹی خدائی کا دعوی کرنے والوں کا اس دنیا میں کیسا عبرت ناک انجام ہوا ہے۔ تصوف کا رستہ عشق کی راہوں سے ہو کر گزرتا ہے۔ عشق پاک محبت کا نام ہے۔ جب محبت خود غرضی اور نفس پرستی سے آگے گزر جاتی ہے تو عشق کا رتبہ اختیار کر لیتی ہے۔ میری نظر میں تصوف کا رستہ انسان کو اسکے اصل سے روشناس کرواتا ہے۔ اللہ تعالی نے اس کائنات میں بے شمار مخلوقات پیدا کی ہیں لیکن انسان کو اشرف المخلوقات بناکر اسکی توقیر میں اضافہ کیا ہے۔ وہ اپنے ارد گرد غور کرتا ہے۔اور اپنے رب کی پہچان میں جنگلوں صحراوں کا رخ کر لیتے ہیں۔ صوفی لوگ مرشد کامل ہوتے ہیں۔ ایسا شخص جو انسان کی دینی تعلیم کے ساتھ اسکی روحانی تربیت بھی کرے۔ صوفیاء ایسے لوگوں کو کہا جاتا ہے جو اپنے ظاہر سے زیادہ اپنے باطن کے تزکیہ اور تصفیہ کی طرف توجہ دیتے ہیں اور دوسروں تک اسی کی دعوت پہنچاتے ہیں۔ اللہ کی محبت حاصل ہونے کے بعد انسان اللہ کی رضا پر راضی ہوجاتا ہے۔ رضائے الٰہی کا حصول تصوف کا اصل ہے۔ خدا اپنے بندوں کی بھلائی چاہتا ہے اسی لئے اس نے حقوق العباد کو زیادہ معتبر قرار دیا ہے اور انسانوں کے انسانوں پر حقوق کو زیادہ اہمیت دے کر انسانیت کی تلقین کی ہے۔ مجھے وزیر اعلیٰ کے رویے اور ان کی گفتگو میں صوفیانہ افکار کا عکس نظر آتا ہے۔ ظاہر ہے ان کا تعلق خواجہ فرید کی دھرتی سے ہے اور یہ کس طرح ممکن ہے کہ ڈیرہ غازی خان کا فرد خواجہ فرید کے انسانیت سے بھرپور فلسفے سے متاثر نہ ہو۔ دعاگو ہوں کہ وہ اسی طرح انسانوں کی توقیر کو بڑھانے کے لئے اپنے فرائض سرانجام دیتے رہیں اور ان کی سربراہی میں یہ صوبہ واقعتا صوفیاء کی سرزمین کہلائے اور یہاں کے لوگ اپنے اعلیٰ اخلاقی رویوں سے جانے جائیں۔ انہیں اپنے اردگرد کوئی ایسا محرم راز ضرور ملے جو ان کے درد کا مداوا کر دے۔ …؎
کِنّوں حال سناواں دل دا
کوئی محرم راز نہ مِلدا

مزیدخبریں