وزارت قانون نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کو اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد مزید کام کرنے سے روک دیا۔
اسلام آباد میں وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم اور وزیراعظم عمران خان کے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے مشترکہ پریس کانفرنس کی۔
وفاقی وزیر قانون بیرسٹر فروغ نسیم کا کہنا تھا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ نے احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کی خدمات واپس کرنے کے حوالہ سے مراسلہ بھیجا تھا جس کا بغور جائزہ لیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وزارت قانون نے ارشد ملک کو مزید کام سے روکتے ہوئے ان کی خدمات لاہور ہائیکورٹ کو واپس کردی ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ جج ارشد ملک نے اپنے بیان حلفی میں کہا ہے کہ خوف اور لالچ کے بغیر فیصلہ دیا، رشوت کی پیشکش بھی کی گئی تھی، بیان حلفی کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کیا، نواز شریف کو ایک مقدمے میں سزا اور دوسرے میں بری کیا گیا۔
وفاقی وزیر قانون کا کہنا تھا کہ نیب کے قانون کے مطابق اگر جج کو دھمکی یا سفارش کی پیشکش کی جائے تو اس کی سزا 10 سال ہے، جج کو کام سے روکنے پر ان کے فیصلوں پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔
انہوں نے کہا کہ جاتی امراء میں نواز شریف سے ارشد ملک کی ملاقات کرائی گئی، عمرے پر حسین نواز جج ارشد ملک کو ملے اور 50 کروڑ کی پیشکش کی، وہ لندن میں اپنے فلیٹس کی منی ٹریل دیں اور بری ہوجائیں۔
بیرسٹر فروغ نسیم کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ نے نواز شریف کی زیر سماعت اپیل پر فیصلہ کرنا ہے لیکن کسی کو عدالت پر دباﺅ ڈالنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم اور موجودہ حکومت آئین، قانون اور انصاف کے ساتھ کھڑی ہے، عدالتوں کو دباﺅ میں لانے کی ہر گز اجازت نہیں دی جائے گی۔
وزیرقانون نے کہا جب تک اس شاخسانے کا فیصلہ نہیں آتا، سزا اور جزا کا فیصلہ نہیں ہوسکتا، جج ارشد ملک سے متعلق فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کرنا ہے۔
فروغ نسیم نے کہا بیان حلفی اصل کیس کی میرٹ پر اثر انداز نہیں ہوگا، بیان حلفی یا ویڈیو سے لندن فلیٹ کی منی ٹریل کا کوئی واسطہ نہیں، جج ارشد ملک کیخلاف ویڈیو کے معاملے کا نواز شریف کیسز سے تعلق نہیں، چیئرمین نیب، ڈپٹی اور پراسیکیوٹر31بی کے تحت کارروائی کا فیصلہ کریں گے۔
وزیرقانون کا کہنا تھا سوال کیاگیابیان حلفی جمع کرانےمیں تاخیرکی گئی، کبھی ایک دن کی تاخیرکی اہمیت ہوتی ہے کبھی24 سال کی بھی اہمیت نہیں ہوتی، جیسے ہی رجسٹرار کا خط ملاسب سے پہلے جج ارشدملک کو کام سے روک دیا۔
انھوں نے کہا آج بھی اصل مسئلہ منی ٹریل کاہی ہے، لندن میں اپارٹمنٹس کی منی ٹریل تودیناپڑےگی، کوئی جج اس لیےتعینات نہیں کروں گا کہ کسی کو سزا اور کسی کو رہا کردے، جج کی تعیناتی میرٹ پرکی جائےگی۔
فروغ نسیم نے کہا کہ جج کو دھمکانے یا دباؤ ڈالنے کی سزا الگ ہے اور عدالتی فیصلے پر اثر انداز ہونے کی سزا 10 سال ہو سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جج کو کام سے روکنے پر انکے دیے فیصلوں پر اثر نہیں پڑتا اور جج کو رشوت یا دھمکی دینے سے متعلق سزائیں موجود ہیں۔
تاہم دیکھنا پڑے گا کہ کیا فیصلہ دباؤ میں دیا گیا کہ نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ کسی کو دباؤ اور ٹمپر کرنے کی اجازت نہیں دیں گے، اگر ثابت ہوا کہ جج کو دھمکیاں دی گئیں تو سیکشن 31 موجود ہے۔
معاون خصوصی شہزاداکبر
معاون خصوصی شہزاداکبر کا کہنا تھا اسلام آباد ہائی کورٹ کا خط ملنے کے بعد ضروری تھا عوام کوآگاہ کیا جائے، جج ارشد ملک کا بیان حلفی بھی خط کے ساتھ موصول ہوا ہے، بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے، جیسا پاناما کیس میں بھی ایک مافیا کا ذکرتھا، یہ ایک پوری داستان ہے جو سفارش سے شروع ہو کر دھمکیوں پر ختم ہوتی ہے، پاناما کیس میں سسلین مافیا کا ذکر کیاگیاتھا۔
شہزاداکبر کا کہنا تھا کہ بیان حلفی میں کہاگیاپیشیوں کے دور میں جج صاحب کی میٹنگ بھی کرائی گئی، مجھےنہیں بتایاگیا اور میری میٹنگ بھی فکس کی گئی ، جج صاحب کہتے ہیں مجھے ابتدامیں 10کروڑ کی آفرکی گئی ، بیان حلفی سے واضح ہے یہ سارا سلسلہ تعیناتی سے شروع ہوتا ہے۔
معاون خصوصی نے کہا تینوں کیسز جج بشیراحمد کی عدالت میں چل رہے تھے، ایسا لگتا ہے جج ارشدملک کی عدالت میں کیسز اثر اندازی سے منتقل کرائے گئے، ناصر جنجوعہ سے متعلق عوام جانتے ہیں کیونکہ پیشیوں میں وہاں ٹھہراؤ ہوتا تھا۔
ان کا کہنا تھا بیان حلفی سے واضح ہے سارا کھیل مافیا کا ہے، ملتان کی ایک ویڈیو سے جج ارشد ملک کو بلیک میلنگ شروع ہوتی ہے، بیان حلفی میں کہاگیا ہے ملتان کی ویڈیو پر بلیک میل کیا جاتا ہے، یہ بھی حیرت انگیز ہے سماعتوں کےدوران نوازشریف ملاقات کرتے ہیں ۔
،شہزاداکبر نے کہا ناصربٹ باقاعدہ ریکارڈنگز کر کے لے جاتا تھا، ناصر بٹ جج ارشدملک کوکہتاہےمیاں صاحب مطمئن نہیں جاتی امرا چلیں، بیان حلفی میں لکھا ہے ناصر بٹ بلیک میلنگ اور دھمکیاں دیتاہے، جاتی امرامیں نواز شریف سے ملاقات کرائی جاتی ہے، سعودی عرب میں حسین نواز سے ملاقات کرائی جاتی ہے۔
معاون خصوصی کا کہنا تھا جج کو ویڈیو دکھانے کے بعدایک اسکرپٹ دیا جاتاہے اور کہا جاتاہے پڑھ کر سنائیں، جج کوکہا اسکرپٹ پر عمل کرنا ہے، عمل نہ کرنے ویڈیو پھیلا دیں گے، بیان حلفی کے مطابق مخصوص ٹیم بنائی گئی جوباقاعدگی سے بلیک میلنگ کرتی ہے۔
انھوں نے مزید کہا نوازشریف کےکیسزکوسیاست کی نظرکرنےکی کوشش کی جارہی ہے اور کیسزمیں بھی سیاسی اثرورسوخ استعمال کرنے کی کوشش کی گئی، احتساب کےعمل کےخلاف بھی ایک مخصوص پروپیگنڈا کیاجارہا ہے، مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے کیسز جج ارشد ملک کی عدالت منتقل کرائے گئے ، جج کے مرضی پر نہ چلنے پر سفارش اور پھر سلسلہ دھمکیوں تک چلاگیا۔
شہزاداکبر خفیہ ویڈیوسےمتعلق سائبرکرائم ایکٹ پر بھی غور ہورہا ہے، خفیہ ویڈیوبنانے سے متعلق جج بھی درخواست گزاربن سکتےہیں، دیکھنا ہے سائبر کرائم سے متعلق درخواست کون دے رہا ہے، خفیہ ویڈیوبنانےسےمتعلق جج صاحب بھی درخواست دے سکتے ہیں، جب تک منی ٹریل نہیں دیتے نواز شریف کی سزا ختم نہیں ہوسکتی۔