جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کے سلسلے میں حکومت پنجاب نے ملتان میں پولیس ہیڈ کوارٹر بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سلسلے میں پہلے ایڈیشنل آئی جی انعام غنی کو ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔حکومت کے اس اقدام کو عوامی حلقے ’’گونگلوں سے مٹی جھاڑنے‘‘ کے مترادف قرار دے رہے ہیں جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پہلے سے ڈی آئی جی لیول کے افسران یہاں موجود ہیں جو اپنی بساط کے مطابق پولیسنگ کررہے ہیں جبکہ نئے ایڈیشنل آئی جی کیلئے دفتر تک کا مناسب بندوبست نہیں کیا گیا،ان کے پاس ایس پی لیول کے تبادلوں تک کا اختیار نہیں جبکہ پرسنل سٹاف بھی نہیں دیا گیا جس کا اہتمام مقامی طور پر کیا جارہاہے۔
یہ بات کہی جارہی ہے کہ انہیں صرف’’ڈنگ ٹپانے ‘‘کیلئے تعینات کیا گیاہے دوسری طرف سول سیکرٹریٹ کے دفاتر بہاولپور میں بنا کے دونوں شہروں کے باسیوں کو لڑانے کی کوشش کی گئی ہے جبکہ آبادی ،سرکاری ملازمین اور ہر دوسرے شعبہ میں بہاولپور کا مقابلہ ملتان سے کیا ہی نہیں جاسکتا۔جمہوری ،اخلاقی اور قانونی اُصول ہے کہ سہولیات وہاںفراہم کی جاتی ہے جہاںمسائل ہوتے ہیں جبکہ جنوبی پنجاب کے ایشو پر حکومت نے یہ فامورلہ اپنایا ہی نہیں دوسری طرف ملتان کا مقدمہ جنہوں نے لڑنا تھا وہ دبکے بیٹھے ہیں اور ان کی آوازیں گم ہیں۔جنوبی پنجاب میں موجود بیوروکریسی کچھ عرصہ سے ریاست کے چند سرکاری پلرز کے علاوہ سب سے دوری رکھ رہی ہے جس کی وجوہات یہ بتائی جارہی ہیں وہ بھی ملتان کو جنوبی پنجاب کا مرکز اس لئے نہیں دیکھنا چاہتے کیونکہ یہاں قومی میڈیا کا لاہور کے بعد بڑا ہیڈ کوارٹر موجود ہے جبکہ جنوبی پنجاب کے کسی بھی بار سے زیادہ سرگرم وکلاء طاقت اور اعداد کے لحاظ سے موجود ہیں اوردونوں بڑے سیکٹرز ان کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔
جنوبی پنجاب کے گیارہ اضلاع اور تین ڈویژنز میں اس وقت پولیس کی مجموعی تعداد تقریباً نو ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس کے مقابلے میں یہاں کی آبادی چھ کروڑ ہے۔اس میں ملتان کی نفری پانچ ہزار سے زائد ہے جبکہ دیگر ڈویژنز میں ڈیرہ غازی خان کی 2100 اور بہاولپور کی بھی 2500 کے قریب ہے جبکہ صرف لاہور کی پولیس 40,000 جبکہ پورے کے پی کے جہاں کی آبادی جنوبی پنجاب سے کم ہے 25000کے لگ بھگ ہے،جنوبی پنجاب میں انتہائی کم نفری سے گزارہ ہی کیاجارہا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ پولیس کو جان بوجھ کرایسا رکھا گیا ہے تاکہ وہ اس قابل نہ ہوسکے کہ وہ ملک کے اندرونی معاملات تن تنہا سنبھال سکے۔ ایسا ہونے سے کئی دیگر اداروں کی اہمیت میںکمی واقع ہوسکتی ہے۔ایڈیشنل آئی جی سلمان غنی نے ملتان میں اپنی پہلی پریس بریفنگ میں کہا ہے کہ وہ میڈیا کو اپنے کان اور آنکھیں سمجھیں گے جس کی وجہ یہاں تعینات رہنے والے افسران کے رویے ہو سکتے ہیں۔تاہم ان کا عمل ابھی زبانی بات سے آگے نہیں بڑھا ۔انہوں نے روایتی پولیسنگ کی باتیں کی ہیںاور ایسا کوئی اہم اعلان نہیں کیا جس سے جنوبی پنجاب کے عوام کیلئے ریلیف کہا جاسکے۔
مقدمات کے اندراج ،میرٹ کی باتیں تو سب کئی دہائیوں سے سن رہے ہیں مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا تو لوگ بھی زیادہ اُمیدیں نہیں لگا رہے۔گزشتہ دنوں آئی جی پنجاب شعیب بھی ملتان آئے تھے اور انہوں نے ملتان پولیس لائن میںدربار لگایا ،لاہور میں بیٹھنے والے ان اعلیٰ افسر کی ملتان میںسرگرمیوں کے دوران صرف سرکار ی میڈیا کو اجازت دی گئی تھی جو افسران اور انکے مشیروں کی ذہنی کیفیت کو ظاہر کرتی ہے۔آئی جی نے دربار کے دوران وہاں پیش ہونے والے منتخب پولیس ملازمین کے مسائل سنے جن کو پہلے سے ملتان کے افسران نے دیکھ لیا تھا۔آ ر پی اوملتان نے دربار میں سپاس نامہ بھی پیش کیا تاہم پولیس کے حلقوں کے مطابق اس میں کوئی ایسی بات نہیں تھی جس سے اس علاقہ کی فورس کے مسائل اُجاگر ہوتے ۔آئی جی یہاں کے حقیقی آوازوں اور فیڈ بیک سے محروم لاہور واپس روانہ ہوئے ہیں۔بہر حال ملتان میں پولیس ہیڈ کوارٹر بنائے جانے کے اعلان کو مثبت اعلان لیا جانا چاہئے ۔آئندہ آنے والے وقت میں واضح ہوگا کہ اس کے کیا ثمرات سامنے آتے ہیں ۔
ضلعی پولیس ہیڈ کوارٹر اور ملتان کا مقدمہ
Jul 12, 2020