’’بابری مسجد کی شہادت اور مسلمان‘‘

Jul 12, 2020

نبیلہ اکبر

آج سے 28 سال قبل بھارت کی تاریخی بابری مسجد کو ہندوستان میں مسلم عہد رفتہ کی عظیم یادگار مسجد کوہندو فرقہ پرستوں کے جتھے نے شہید کر دیا تھا۔ دو دہائیوں سے زائد عرصے بابری مسجد سیکولر کا واویلا مچانے والے بھارت سے انصاف کی جنگ لڑتی رہی ۔ چاہے مسلمانوں کی ہمدردی کا ڈھونگ رچانے والی کانگریس ہو یا مسلم وجودسے بھارت کو مکت کرنے والی بی جے پی دونوں نے مسلم شناخت و اسلامی تہذیب و ثقافت کو مٹانے میں مسلسل سرگرم ہیں۔بھارتی سپریم نے بابری مسجد کے مقام پر رام مندر کی تعمیر کی اجازات دیکر دم توڑتے ہوئے سیکولر ازم کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دی ہے ۔ سوئی امت کیا جاگتی اس نے تو نریندر مودی حکومت کی اس فیصلے پر باز پرس کرنابھی مناسب نہ سمجھا ۔ 52 آزاد اسلامی مملکتوں میں سوائے ترکی کے کسی نے بھی اظہار مذمت کرنا بھی ضروری خیال نہ کیا ۔ اسلامی تعاون کی تنظیم او آئی سی بھی اجلاسوں اور کانفرسوں سے آگے نہ بڑھ سکی ۔عرب امارات تو ویسے بھی مودی سے قربتیں بڑھانے میں مصروف ہے ۔ بابری مسجد شہید کرنے والے آر ایس ایس کے پرچارک نریندر مودی کوابو ظہبی سمیت دیگر عرب ریاستوں میں مندر بنا کر ان کی چابیاں تحفے میں دی گئیں۔ غیروں سے کیا گلہ کریں مسلمان حکمران ہی ہنود ویہود کے اسیر نظر آتے ہیں۔بابری مسجدمسلمانان ہند کا سب سے نازک ،حساس اور سنگین مسئلہ ہے ،مورتی رکھے جانے سے اس کی شہادت تک اور اس کے بعد سے اب تک مسلمانان ہند اس کی حصول یابی اور بازیابی کیلئے ہزراوں قربانیاں دے چکے ہیں اور عدلیہ سے انصاف کی امید لگائے بیٹھے تھے ۔مقدمہ لڑنے والے مسلم فریق کو یہ یقین تھا کہ دلائل اور حقائق کی روشنی میں مقدمہ جیت جائیں گے کیونکہ اس جگہ کے رام جنم بھومی ہونے پر کوئی ثبوت نہیں ہیں ، ایسے میں عدلیہ کا اسے آستھا اور عقیدت کا مسئلہ قراردیکر وہاں مندر کی تعمیر کا فیصلہ مسلمانوں کے لئے مایوسی کا سبب بن گیا ہے اور پس پردہ شایدیہ پیغام دیا گیاہے کہ بابری مسجد کی اراضی کا فیصلہ اکثریت اور اقلیت کی بنیاد پر کیا گیا ہے۔انتہاپسند ہندوؤں نے 6 دسمبر 1992 کو شہید کردیا تھا۔ایودھیا میں واقع بابری مسجد کی شہادت کے بعد بھارت میں بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے، جس میں 2 ہزار سے زائد مسلمانوں کو شہید کیا ۔انتہا پسند ہندووں کا کہنا ہے کہ وہ اس مقام پر ہندو دیوتا 'رام' کا نیا مندر تعمیر کرنا چاہتے ہیں، جو ان کی جائے پیدائش ہے۔برصغیر کی تقسیم تک معاملہ یوں ہی رہا، اس دوران بابری مسجد کے مسئلے پر ہندو مسلم تنازعات ہوتے رہے اور تاج برطانیہ نے مسئلے کے حل کے لیے مسجد کے اندرونی حصے کو مسلمانوں اور بیرونی حصے کو ہندوؤں کے حوالے کرتے ہوئے معاملے کو دبا دیا۔تقسیم ہندوستان کے بعد حکومت نے مسلم ہندو فسادات کے باعث مسجد کو متنازع جگہ قرار دیتے ہوئے دروازوں کو تالے لگا دیے، جس کے بعد معاملے کے حل کے لیے کئی مذاکراتی دور ہوئے لیکن آج تک کوئی نتیجہ نہ نکل سکا۔ان کا موقف ہے کہ 16ویں صدی کی بابری مسجد، مسلم بادشاہوں نے ہندو دیوتا کا مندر گرانے کے بعد قائم کی تھی۔بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی نے 2014 ء اور ء 2018 میں انتخابات سے قبل اس مقام پر مندر تعمیر کرنے کا وعدہ کیا تھا، جس کی وجہ سے انہیں انتہا پسند ہندووں کے بڑے پیمانے پر ووٹ ملے تھے۔آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے سیکرٹری محمد عبدالرحیم قریشی نے اپنی تصنیف ’’ایودھیا کا تنازعہ رام جنم بھومی فسانہ ہے حقیقت نہیں‘‘ میں بابری مسجد کے قاتلوں کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس وقت کے بھارتی وزیر اعظم کی سیاسی سازش قرار دیا ہے۔ دراصل بی جے پی تین ایجنڈوں کے سہارے انتخابات میں ووٹ مانگتی ر ہی ہے اس میں دو اب پورے ہو چکے ہیں۔ ان میں ایک مقبوضہ جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کو ختم کرنا اور بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر تھا۔ اب ہندوستان میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ باقی رہ گیا ہے۔ ان میں سے بی جے پی کو بابری مسجد نے خاص طور پر فائدہ پہنچایا ہے۔ بھارت کی سپریم کورٹ بھی بی جے پی کی طرح ہندو انتہا پسندی کی محافظ بن کر سامنے آئی ہے۔سپریم کورٹ کے فیصلہ پر تبصرہ کرتے ہوئے بہت سے سیکولر ہندوؤں کا بھی یہ کہنا ہے کہ یہ فیصلہ مضحکہ خیز اور تضاد بیانی پر مبنی ہے جبکہ سپریم کورٹ نے یہ تسلیم بھی کیاہے کہ میرباقی نے 1528عیسوی میں بابری مسجد کی تعمیر کی تھی اور یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ آرکیولوجیکل سروے آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق اس جگہ پر کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی گئی ہے۔
صور اسرافیل تھا یہ سانحہ سوئی امت کو جگانے کے لیے

مزیدخبریں