پاکستان کی اساس کو کمزور کرنے میںجہاں اور بہت سے عوامل کار فرما رہے ہیں وہیں ہمیں معاشرتی طور پر سب سے زیادہ نقصان دو طبقوں نے پہنچایا ہے ایک وہ جو لبرل ازم کا لبادہ اوڑھ کر ہر ایسے اقدام کا دفاع کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جو مذہبی منافرت پھیلائے اور اسلام کی بنیاد کو کمزور کرے اور دوسری طرف وہ علماء اور مولوی حضرات جو فرقوں میں بٹے محبت اور یگانگت کا درس دینے کی بجائے معاشرے میں انتشار کا سبب ہیں اور لوگوںکو تقسیم در تقسیم کررہے ہیں ۔ ماضی پہ نگاہ دوڑائیں تو وہ وقت زیادہ دور نہیں جب یہی علماء اور مولوی حضرات کو ایسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا کہ معاشرے کا ہر فرد ان کی تعظیم بجا لاتا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ ان کا ہر عمل ان کے الفاظ کی گواہی دیتا تھا ۔ اٹھارویں صدی میں جب مسلمانوں کی حکومت کمزور پڑنے لگی اور انگریزوںکا اثر بہت زیادہ بڑھ گیا تو 1857ء میں تحریک آزادی بھرپور انداز میں شروع ہوئی جو پورے برصغیر میں پھیلی اور انگریزوں کو ہلا کر رکھ دیا اس کا تفصیلی تذکرہ تاریخ کے اوراق میں موجود ہے آخر کا ر انگریز وقتی طور پر اس کو دبانے میں کامیاب ہو گئے اور اس کے بعد انہوں نے اس کے اسباب و عوامل اور اس میں مضبوط کردار ادا کرنے والوں کا سراغ لگایا اور اسکے نتیجے میں چند اعلی انگر یز افسر اپنے ملک میں واپس بلائے گئے ان میں سرنگا پٹم کا گورنر بھی تھا اس نے جب اپنی رپورٹ پیش کی تو اس میں ایک کوتاہی کا اقرار کیا۔ وہ لکھتا ہے کہ میں نے مسلمانوں کے معاشرے میں مولوی کے کردار کا تجزیہ کرنے اور اس کا صیح اندازہ لگانے میں غلطی کی۔ مقبولیت، ہر دلعزیزی، محنت، وقعت، اور اخلاص کا صیح اندازہ نہیں کر سکا۔ میں نے جب غور کیا تو معلوم ہوا کہ یہ اکیلا شخص پندرہ اداروں کا کام سر انجام دیتا ہے۔ 1۔ امام 2۔ معلم 3۔ کاتب (منشی)4۔ وکیل 5۔ امین 6۔ ثالث 7۔ مفتی 8۔ قاضی 9۔ معالج 10۔ سماجی کارکن 11۔ ہمدرد 12۔ نکاح خواں 13۔ رہنما 14۔ مسافروں کو ٹھکانہ دینے والا 15۔ پوسٹ ماسٹر ۔۔۔ یہ وہ وقت تھا جب مولوی ، علماء اور شیخ حضرات کو بہت قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا بڑے بڑے بادشاہ ان حضرات کی تعظیم بجا لاتے تھے اور مدارس تعلیم و تدریس اور معاشرتی تربیت کے حوالے سے بہت معتبر جانے جاتے تھے۔
پروفیسر عبدالباری اپنی کتاب ’’ تاریخ ترکیہ ‘‘ میں لکھتے ہیںکہ ایک بار ترکی کے سلطان سلیمان کو بتایا گیاکہ درختوں کی جڑوں میں چیونٹیاں بہت زیادہ ہوگئی ہیں تو سلطان نے ماہرین کو بلایا اور پوچھا کہ اس کا کیا حل ہے ؟ماہرین نے بتایا کہ فلاں تیل اگر درختوں کی جڑوں پر چھڑک دیا جائے تو چیو نٹیاں ختم ہوجائیں گی، مگر سلطان کی عادت تھی کہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے اس کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرتے تھے اس لئے خود چل کے ریاستی مفتی جن کو شیخ الاسلام کہا جاتا تھا کے گھر گئے مگر شیخ گھر پر نہیں القانونی تھے اس لئے ایک پیغام شعر کی صورت میں لکھ کر ان کے لئے رکھا جو یہ تھا ’’ ا ذا دب نمل علی الشجر فھل فی قتلہ ضرر؟ ۔۔‘‘ یعنی اگر درختوں میں چیونٹیاں ہو جائیں تو ان کو قتل کرنے میں کوئی ضرر ہے ؟ جب شیخ آیا اور پیغام دیکھا تو جواب میں یہ لکھا : ’’اذا نصب میزان ا لعدل اخذ النمل حقہ بلا وجل‘‘ اگرانصاف کا ترازو قائم ہو تو چیونٹیاں صرف اپنا حق لیتی ہیں شیخ نے اشارہ دیا کہ زیادہ اہم کیا ہے ۔
سلطان آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کو فتح کرنے کی نیت سے جہادی سفر پر نکلے مگر راستے میں انتقال ہو گیا تو آپ کے جسد خاکی کو واپس استنبول لایا گیا ، آپ کی تجہیز و تکفین کے دوران آپ کا وصیت نامہ ملا جس میں لکھا تھا کہ میرا صندوق بھی میرے ساتھ دفن کرو ، علماء حیران ہو گئے اور یہ سوچنے لگے کہ یہ ہیرے جواہرات سے بھراہوا ہو گااور اتنی قیمتی چیزوں کو مٹی میں دفنایا نہیں جا سکتا اس لئے صندوق کھولنے کا فیصلہ ہوا ، صندوق کھول دیا گیا تو یہ دیکھ کر لوگ حیران ہو گئے کہ اس میں وہ تمام فتوے تھے جو علماء سے لینے کے بعد سلطان نے اقدامات کئے تھے اور ساتھ دفنانے کا مقصد یہ تھا کہ اللہ کو ثبوت پیش کروں کہ میں نے کوئی بھی حکومتی فیصلہ اسلام کے خلاف نہیں کیا بلکہ علماء سے باقاعدہ فتوی لے کے کیا یہ دیکھ کے شیخ الاسلام ابو سعود جو کہ ریاست کے مفتی تھے رونے لگے اور کہا سلطان تم نے تو اپنے آپ کو بچا لیا ہمیں کون بچائے گا ۔ یہ وہ اسلامی ریاستیں تھیں جنہوں نے ریاست مدینہ کو محض نعرہ نہیں بنایا تھا بلکہ جہاں عملی طور اسلامی قوانین کو نافذ کیا جاتا تھا ۔ حکمران ، علمائ، شیخ ، قاضی حکومتوں کو چلانے والے سب نہ صرف خوف خدا رکھتے تھے بلکہ اپنے آپ کو جواب دہ بھی سمجھتے تھے اور لوگوںکی نظر میں عزت کا مقام رکھتے تھے۔