’’مائنس ون ‘‘ عمران خان اور اپوزیشن

Jul 12, 2020

محمد نواز رضا--- مارگلہ کے دامن میں

معلوم نہیں ’’مائنس ون ‘‘ کی اصطلاح ملکی سیاست میں کب استعمال ہوئی عام احتمال ہے کہ یہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان پائی جانے محاذ آرائی کے دوران استعمال ہو تی رہی کہا جاتا ہے اس یہ اصلاح ’’ایسٹیبلشمنٹ ‘‘ کی دریافت کر دہ جسے بے نظیر بھٹو کے سیاسی مخالفین ان کے لئے استعمال کرتے رہے پھر یہی اصطلاح میاںنواز شریف کے خلاف استعمال ہوئی دلچسپ امر یہ ہے اس اصطلاح کا جس بے دردی سے استعمال تو کیا جاتا رہا لیکن کبھی کوئی جمہوری طریقے سے مائنس ہوا اور نہ ہی غیر جمہوری طریقے سے کسی نمبر ون کو مائنس کیا جا سکا کبھی مارشل لاء لگا کر کبھی عدالت کے ذریعے گھر بھجوایا دیا گیا لیکن پھر بھی کسی جماعت کا نمبر ون مائنس نہیں ہوا 2014ء کے دھرنا میں بھی عمران خان کی طرف سے مسلسل مسلم لیگ (ن) کی حکومت سے ’’مائنس ون‘‘ کا مطالبہ کیا جاتا رہا لیکن وہ اس بات پرڈٹے رہے کہ ’’ استعفیٰ دوں نہیں دوں گا کوئی ان سے ان کی لاش پر سے گذ ر کر ہی استعفیٰ لے گا ‘‘ میاں نواز شریف دھرنے کے بعد بھی تین سال تک وزارت عظمیٰ کے منصب پر متمکن رہے۔ اکتوبر2019ء کے مولانا فضل الرحمن کے دھرنے میں بھی عمران سے یہی مطالبہ کیا جاتا رہا جو وہ ماضی قریب میں میاں نواز شریف سے کرتے رہے لیکن مولانا فضل الرحمن ’’یقین دہانیوں ‘‘ کا بوجھ اٹھائے ’’بے نیل مرام‘‘ واپس لوٹ کر چلے گئے بظاہر مارچ 2020ء میں ان ’’یقین دہانیوں‘‘ کے ٹائم فریم مقرر کیا گبا تھالیکن ’’کورونا وائرس ‘‘ کی وباء سے نمٹنے کے لئے وزیر اعظم عمران خان کی ضرورت محسوس کی گئی لیکن حکومتی حلقوں میں اس عقدہ کو حل کرنے کی کوشش کی جاتی رہی کہ میاں شہباز شریف سب کچھ چھوڑ کرلندن سے پاکستان کیوں واپس آگئے جب کہ وہ خود بیمار شخص ہیں ان کی ’’قوت مدافعت‘‘ بھی خاصی کمزور ہے ان کے دو چار چکر نیب کے لگے تو ان کا بھی کورونا کا ٹیسٹ ’’پازیٹو‘‘ آگیا جون کے اواخر میں اچانک ’’مائنس ون‘‘ کا شوشہ چھوڑا گیا جس کی بظاہر کو ئی صورت نظر نہیں آتی عمران خان کی حکومت ایوان کا اعتماد نہیں کھو پائی ۔ کوئی دھرنا سر پر کھڑا ہوا اور نہ ہی پارٹی کے اندر کوئی بغاوت ہوئی جس کے بعد ’’مائنس ون ‘‘ کا تقاضا ہو وزیر اعظم عمران خان نے وزیر اعظم ہائوس میں اتحادیوںاور ’’ناراض‘‘ ارکان سے ملاقاتیں کر کے نہ صرف قومی اسمبلی سے وفاقی بجٹ 2020-21 با آسانی منظور کرالیا بلکہ قومی اسمبلی میں دو بار دھواں دھار تقاریر کر کے جہاں اپنی ’’سیاسی دھاک‘‘ بٹھانے کی کوشش کی وہاں ان کی زبان پر ’’مائنس ون‘‘ کی بات آگئی انہوں نے اپوزیشن کومخاطب ہو کر کہا کہ ’’مائنس ون‘‘ کا مطالبہ کرنے والے سن لیں !’’ مائنس ون بھی ہو جائے تو (اپنی پارٹی کے ارکان کی طرف اشارہ کر تے ہو ئے ) تو میرے ساتھی ان کا احتساب کریں گے اور ان کو نہیں چھوڑیں گے ‘‘
سوال یہ ہے عمران خان کی زبان پر ’’مائنس ون‘‘ کا تذکرہ کیوں آیا؟ عمران خان کی بجٹ کی منظوری سے قبل خطاب مفاہمانہ جذبات کی عکاسی کرتا تھا کمال بات یہ ہے 22ماہ بعد اپوزیشن نے وزیر اعظم کا خطاب سکون کے ساتھ سنا لیکن دو روز بعد بجٹ کی منظوری کے بعد ان کا خطاب ’’خاصا جارحانہ ‘‘ تھا ان کے خطاب میں شدت پائی جاتی تھی انہوں نے جہاں اپوزیشن کو خوب ’’رگڑا‘‘ لگایا وہاں انہوں نے اپوزیشن کو یہ باور کرانے کی کوشش کی وہ کہیں جانے والے نہیں ۔ انہوں نے ان تمام قوتوں کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے ان کو ہٹانے کی کسی بھی غیر جمہوری کوشش کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔ راقم السطور کو عمران خان کے 50سالہ دیرینہ دوست جس نے 34سال بعد میاں نواز شریف سے اپنا سیاسی تعلق ختم کر دیا کا کہنا ہے کہ ’’عمران خان ‘‘ مزاحمت کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتے ہیں لہذا ان کو’’ مائنس ون‘‘ کرنا اتنا آسان نہیں جتنی اپوزیشن سمجھتی ہے بجٹ کی منظور ی سے قبل بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے حکومتی اتحاد سے الگ ہو کر سیاسی حلقوں کو سرپرائز دیا اگرچہ ابھی تک بی این پی (مینگل) نے اپوزیشن کو باضابطہ جائن نہیں کیا تاہم سردار اختر مینگل کے اپوزیشن جماعتوں سے رابطوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ ان کا جھکائو اپوزیشن کی طرف ہے ۔یہی وجہ ہے انہوں نے بجٹ میں حکومت کے خلاف ووٹ ڈالا عمران خان حکومت قومی اسمبلی میں 184ارکان کی حمایت حاصل تھی۔
بی این پی (مینگل) کے 4ارکان کی حمایت سے محروم ہونے کے بعد حکومتی اتحاد کے ارکان کی تعداد 180رہ گئی ہے جب کہ قومی اسمبلی میں حکومت قائم رکھنے کے لئے172ارکان کی ضرورت ہے برطانیہ میں پارٹی ڈسپلن اس قدر مضبوط ہے ایک ووٹ کی اکثریت پر حکومت قائم رہتی ہے لیکن پاکستان میں صورت حال مختلف ہے یہاں اصطبل کے اصطبل فروخت ہو جاتے ہیں اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے حکومت نازک شاخ پر بیٹھی ہے جمہوری وطن پارٹی تاحال حکومت سے الگ نہیں ہوئی اس کا ایک رکن ہے وہ اپنے مطالبات منوانے کے لئے کبھی وزیر اعظم کے پاس ہوتے ہیں۔ کبھی بلاول بھٹو زرداری کے ہاں موجود ہوتے ہیں لہذا انکے بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کی کہی جا سکتی سر دست وزیر اعظم نے انہیں ’’رام‘‘ کر لیا ہے بلوچستان کے ناراض آزاد رکن اسلم بھوتانی نے ایک ٹی وی ٹاک میں ’’باغیانہ ‘ ‘ روش دکھائی تو ان کو بھی وزیر اعظم نے رام کرنے کیلئے اپنے پاس بلا لیا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک ہی روز اپنے اتحادیوں ایم کیو ایم ،جی ڈی اے اور بی اے پی کو راضی کر لیا ہر جماعت کے پاس مطالبات کی ایک طویل فہرست تھی جو اس نے وزیر اعظم کو تھما دی البتہ مسلم لیگ (ق) اکھڑی اکھڑی نظر آتی ہے۔
وزیر اعظم عمران خان نے بجٹ کی منظوری سے قبل وزیر اعظم ہائوس میں اپنی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے اعزاز میں عشائیہ دیا تو مسلم لیگ (ق) نے عشائیہ میں شرکت سے معذرت کر لی اس وقت مسلم لیگ (ق) کے صدر چوہدری شجاعت حسین نے اپنی رہائش گاہ پر کھانا رکھ لیا سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر جو حکومتی اور اتحادی ارکان کو ’’منانے ‘‘ میں خاصے سرگرم عمل تھے کو چوہدری پرویز الہی نے کہہ دیا ہم ووٹ تو حکومت کو ہی دیں گے لیکن وزیر اعظم کے کھانے میں نہیں آئیں گے البتہ جس روزآپ( سپیکر) بلائیں گے تو سر کے بل آئیں گے معلوم نہیں مسلم لیگ (ق) اور تحریک انصاف کے درمیان اختلاف ہیں بھی کہ نہیں لیکن ’’ ناراضی ‘‘ کی باتوں کے پیچھے کوئی نہ کوئی کہانی ضرور ہے ۔ (جاری)

مزیدخبریں