چیئرمین سی پیک اتھارٹی کا سی پیک سے منسلک 18 سو میگاواٹ کے دو پاور پراجیکٹس کی جلدتعمیر کا عندیہ
چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل (ر) عاصم سلیم باجوہ نے کہا ہے کہ کوہالہ پاور اور آزاد پتن پاور منصوبوں سے چار ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی راہ ہموار ہوئی ہے۔ یہ منصوبے 1800 میگاواٹ بجلی پیدا کرینگے۔ گزشتہ روز وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدرخان اور چینی کمپنیوں کے سربراہان سے الگ الگ ملاقاتوں کے موقع پر عاصم سلیم باجوہ نے متذکرہ ہائیڈل منصوبوں پر جلدازجلد کام شروع کرنے کے اقدامات پر تبادلۂ خیال کیا۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اس حوالے سے اپنے ٹویٹر پیغام میں بتایا کہ توانائی کے ان منصوبوں سے 18 سو میگاواٹ بجلی پیدا ہونے کے علاوہ روزگار کے آٹھ ہزار مواقع بھی پیدا ہونگے۔ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے جن کے پاس وفاقی وزارت اطلاعات کے معاون خصوصی کا قلمدان بھی ہے‘ اپنے بیان میں بتایا کہ پاکستان نے کرونا وبا میں زندگی اور روزگار کیلئے متوازن پالیسی اپنائی ہے جسے پذیرائی مل رہی ہے۔ انکے بقول ملکی پالیسی کی عالمی سطح پر حمایت اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی قوم مہلک وباء کو شکست دینے کیلئے پرعزم ہے۔
یہ حقیقت ہے کہ قومی معیشت کو کرونا وبا کے پیدا کردہ مسائل کے علاوہ بھی متعدد مسائل درپیش ہیں جو سابقہ حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کا شاخسانہ ہیں۔ اس وطن عزیز کو گزشتہ دو دہائیوں سے جن گھمبیر مسائل کا سامنا ہے ان میں توانائی کی قلت اور بجلی کی لوڈشیڈنگ کا مسئلہ سرفہرست ہے کیونکہ اس سے عوام کے اذیت سے دوچار ہونے کے علاوہ قومی معیشت کا پہیہ بھی جامد ہوا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا مسئلہ آج بھی ملک کے عوام کیلئے سوہان روح بنا ہوا ہے جو لوڈشیڈنگ کی اذیت بھی برداشت کرتے ہیں اور بجلی کے روزافزوں نرخ بھی عام آدمی کا انجرپنجر ہلانے کا باعث بن رہے ہیں۔ ان مسائل کے باعث عوام کا اضطراب بڑھتا ہے تو حکومتی گورننس بھی متاثر ہوتی ہے۔ ہمارے ملک میں توانائی کا بحران آبی ماہرین کی بے تدبیریوں کے باعث شروع ہوا تھا جو آج انتہائی گھمبیر صورت اختیار کرچکا ہے۔ ہمارے ازلی مکار دشمن بھارت نے تو پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کے ایجنڈے کے تحت شروع دن سے ہی پاکستان پر آبی دہشت گردی کی سازش کے تانے بانے بن لئے تھے چنانچہ اس نے کشمیر پر تسلط جما کر اسکے راستے پاکستان آنیوالے دریائوں کا پانی اپنے زیراستعمال لانے کی حکمت عملی طے کی اور پھر پاکستان بھارت آبی تنازعات طے کرنے کیلئے سندھ طاس معاہدہ ہوا تو بھارت نے اس سے بھی ناجائز فائدہ اٹھا کر اپنی جانب ایک سو سے زائد چھوٹے بڑے ڈیمز تعمیر کرلئے‘ ان میں بگلیہار ڈیم اور کشن گنگا ڈیم بھی شامل ہیں جن کیخلاف پاکستان نے عالمی بنک اور عالمی عدالت انصاف سے بھی رجوع کیا مگر ہمارے متعلقہ حکام اور آبی ماہرین کی نااہلی کے باعث پاکستان ان ڈیمز کی تعمیر رکوانے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اب بھارت کی مودی سرکار بھارتی سپریم کورٹ سے فیصلہ لے کر تمام دریائوں کا رخ پاکستان سے موڑ کر اپنی جانب کرنے کی منصوبہ بندی طے کرچکی ہے جس کی بنیاد پر مودی پاکستان کو پانی کی ایک ایک بوند سے محروم کرنے کی بڑ ماررہے ہیں۔
ہمارا یہ المیہ ہے کہ ہم سندھ طاس معاہدے کے تحت اپنے حصے میں آنیوالے تین دریائوں پر بھی اپنی ضرورت کے ڈیمز تعمیر نہیں کر پائے جبکہ کالاباغ ڈیم کو بھی بھارت نے فنڈنگ کرکے اپنے حاشیہ بردار پاکستانی سیاست دانوں کے ذریعے متنازعہ بنوا دیا چنانچہ ملک میں کوئی نیا ڈیم تعمیر نہ ہونے کے باعث آبی بحران کے ساتھ ساتھ توانائی کا بحران بھی شروع ہو گیا کیونکہ منگلا اور تربیلا ڈیم سے حاصل ہونیوالی ہائیڈل بجلی پاکستان کی بجلی کی ضرورت پوری کرنے میں ناکافی ثابت ہونے لگی۔ اس تناظر میں ہمیں نئے ڈیمز کی ضرورت تھی جن کی تعمیر کی جانب کسی بھی حکمران نے توجہ نہ دی اور اسکے برعکس پیپلزپارٹی نے اپنے دور اقتدار میں تھرمل بجلی کیلئے نجی تھرمل کمپنیوں کے ساتھ مہنگے معاہدے کرلئے۔ اس سے ملک کی بجلی کی ضرورت تو پوری نہ ہوسکی البتہ بجلی کے نرخوں میں ضرور بتدریج اضافہ ہونے لگا۔ تھرمل بجلی کے یہ منصوبے مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے دور اقتدار میں برقرار رکھے جبکہ ملک کی آبادی اور صنعتوں کے پھیلنے کے تناظر میں بجلی کی ضرورت بھی بتدریج بڑھتی رہی۔ اس طرح سابقہ ادوار میں بجلی کا شارٹ فال 2 ہزار میگاواٹ تک جا پہنچا‘ نتیجتاً عوام کو بالخصوص موسم گرما میں بجلی کی بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑا اور سابقہ حکمرانوں کا پیدا کردہ بجلی کا یہ بحران بدقسمتی سے آج بھی جاری ہے اور آج کراچی سمیت ملک کے عوام مہنگی بجلی کے ساتھ ساتھ بجلی کی قلت کی اذیت بھی برداشت کررہے ہیں جبکہ بجلی کی قلت سے ہماری صنعتیں بھی بری طرح متاثر ہورہی ہیں اور کئی صنعتیں بند ہونے سے بے روزگاری پھیل رہی ہے۔
اب پی ٹی آئی حکومت نے دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر کا آغاز کیا ہے اور چیئرمین سی پیک اتھارٹی لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ نے سی پیک سے منسلک ہائیڈل بجلی کے منصوبوں کے آغاز کی نوید سنائی ہے جن کی تکمیل سے قوم کو جہاں توانائی کے بحران سے نجات ملے گی وہیں ہائیڈل بجلی پیدا ہونے سے بجلی سستی اور وافر دستیاب ہوگی۔ اس سے صنعتوں کا پہیہ سرعت کے ساتھ چلے گا تو ملک میں روزگار کے نئے مواقع بھی نکلنا شروع ہو جائینگے جس کا عاصم سلیم باجوہ نے بھی عندیہ دیا ہے۔
پاکستان چین اقتصادی راہداری درحقیقت پاکستان ہی نہیں‘ اس پورے خطے کی ترقی و خوشحالی کا ضامن منصوبہ ہے اس لئے پاکستان کی سلامتی کیلئے خبث باطن رکھنے والا بھارت اس منصوبے کے بھی درپے ہے جسے سبوتاژ کرنے کی نیت سے ہی اس نے پاکستان اور چین دونوں کے ساتھ بیک وقت سرحدی کشیدگی کی فضا پیدا کر رکھی ہے۔ ایسی بھارتی سازشیں ناکام بنانے کیلئے ہمیں زیادہ سے زیادہ ڈیمز تعمیر کرنے کی ضرورت ہے جن سے ہمیں نہ صرف سستی اور وافر ہائیڈل بجلی دستیاب ہوگی بلکہ انکے ذریعے پاکستان کوکبھی سیلاب میں ڈبونے اور کبھی خشک سالی کا شکار کرنے کی بھارتی سازشیں بھی ناکام ہوں گی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سی پیک اپریشنل ہوگا تو پاکستان کیلئے صنعتی انقلاب اپنے ساتھ لے کر آئیگا جبکہ اسکے ماتحت ہائیڈل بجلی کے منصوبے تکمیل پانے سے پاکستان کے اندھیرے دور کرنے میں بھی مدد ملے گی۔ پاکستان کی ترقی اور عوام کی خوشحالی کے ضامن یہ منصوبے اب حکومت کو ماضی کی طرح سرخ فیتے کا شکار نہیں ہونے دینے چاہئیں۔ ان منصوبوں کی تکمیل سے پی ٹی آئی کی قیادت اور حکومت پر عوام کا اعتماد مزید مستحکم ہوگا۔