اسلام آباد ( عبداللہ شاد - خبر نگار خصوصی) بھارتی لوک سبھا میں مجرمانہ پس منظر رکھنے والے امیدوار کے منتخب ہونے کے امکانات 15.5 فیصد جبکہ شفاف شخصیت کے مالک کسی امیدوار کے جیتنے کے امکانات محض 4.7 فیصد ہیں۔ یہ اس برتے پر کہا جا سکتا ہے کہ موجودہ 17 ویں لوک سبھا میں بھاری اکثریت مجرمان کی ہے۔ 2019 میں منتخب ہونے والے 539 لوک سبھا ارکان میں سے 233 پر تو سنگین جرائم کے مقدمات درج ہیں جبکہ دیگر اکثریت چھوٹے موٹے اخلاقی، مالی و سماجی جرائم میں ملوث ہے ۔ 2009 کے بعد سے بھارتی سیاست میں ’’ مجرم لیڈران‘‘ کی تعداد میں 44 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ 2009 میں الیکٹ ہونیوالی لوک سبھا میں سے 162 یعنی 30 فیصد، 2014 کی لوک سبھا میں 185 یعنی 34 فیصد اور گذشتہ برس یعنی 2019 کی لوک سبھا میں 233 یعنی 43 فیصد سنگین جرائم میں ملوث ارکان منتخب ہوئے۔ یہ امر یقیناً افسوسناک ہے کہ ان ارکان پر ریپ، قتل، ارادہ قتل، اغوا، ہیٹ سپیچ، حبسِ بے جا جیسے مقدمات درج ہوئے ہیں۔ موجودہ 17 ویں لوک سبھا میں جنتا دل یونائیٹڈ کے 16 میں سے 13 ارکان، کانگرس کے 51 میں سے 29 ارکان، ڈی ایم کے کے 23 میں سے 10 ، ترنمول کانگرس کے 22 میں سے 9 اور بی جے پی کے 301 میں سے 116 ارکان پر مختلف علاقوں میں بیسوں سنگین مقدمات درج ہیں۔ ان ارکان میں اجے نشاد، انوراگ سنگھ ٹھاکر، یوگی ادتیہ ناتھ (وزیراعلیٰ یوپی ) ، مختار انصاری، اجے کمار، سادھوی پرگیہ ٹھاکر ( سمجھوتہ ایکسپریس کی مرکزی مجرم)، چتر سنگھ دربار، ہورن سنگھ بے، نتیش پرمانک، منوج کوٹھک، جگدمبیکہ پال، ارون ساگر، راج بہادر سنگھ، اشوک یادو، اشونی چوبے، بھانو پرتاب ورما، بھولا سنگھ، بدیت بارن مہاتو، چھیڑی پسوان، دلیپ گھوش، گنیش سنگھ، گوتم گمبھیر، ہریش درویدی،عتیق احمد، جگ ناتھ سرکار، تسیری نمگیل، جتیندر سنگھ، جون برلا، جیومتری سنگھ مہاتو، کملیش پاسوال، کوشل کشور، کیسری پٹیل و دیگر شامل ہیں۔