افغانستان کے 2 جنوبی صوبوں میں شدید لڑائی ،فضائی حملوںمیں 109 طالبان ہلاک اور 25 زخمی ہو گئے ہیں۔ ادھر امریکہ نے کابل میں اپنا سفارتخانہ عارضی طورپر بند کرنے پر غور شروع کر دیا۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے افغان پائلٹوں کی ٹارگٹ کلنگ کی تصدیق کی اور کہا کہ افغان پائلٹوں کو قتل کرنے کی پالیسی اس لیے اپنائی گئی کیونکہ وہ سب اپنے ہی لوگوں پر بمباری کرتے ہیں۔ چین نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا میں تیزی آنے کیساتھ ہی وہاں موجود 210 چینی شہریوں کو اپنے ملک واپس بلا لیا ہے۔ چین نے کہا ہے کہ امریکہ نے افغانستان میں اپنی ذمہ داریاں نظرانداز کیں اور عجلت میں افغانستان سے فوجی دستے واپس بلائے۔ چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا امریکہ افغان مسئلے کا اصل مجرم ہے۔
افغانستان میں حالات ہر گزرتے دن کے ساتھ بدتر ہو رہے ہیں۔ یہ سب کچھ امریکہ کی بدانتظامی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ افغان انتظامیہ سٹیٹس کو برقرار رکھنے پر نہ صرف مصر رہی بلکہ حالات بھی ایسے پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ امن معاہدے کے ساتھ ہی طالبان کے خلاف کارروائیاں تیز کر دی گئیں۔ امن معاہدے کے تحت سیز فائر ہونا تھا جس کی نوبت نہیں آنے دی گئی۔ طالبان بھی جواب میں حملے کرتے رہے، تاہم امریکہ اور نیٹو فورسز کو نقصان پہنچانے سے گریز کیا گیا۔ امن معاہدے کے مطابق قیدیوں کا معاہدے کے بعد 20 دن میں تبادلہ اور انٹرا افغان مذاکرات کا آغاز ہونا تھا۔ اشرف غنی حکومت نے طالبان قیدیوں کو خطرناک قرار دے کر رہائی سے انکار کر دیا۔ امریکہ کے دبائو پر طالبان قیدیوں کی رہائی شروع ہوئی لیکن سب کو نہیں چھوڑا گیا۔ اب بھی بگرام ائیر بیس میں طالبان قیدی موجود ہیں۔ رات کے اندھیرے میں امریکیوں نے یہ بیس خالی کر دیا جو آج افغان انتظامیہ کے کنٹرول میں ہے جس پر طالبان کسی بھی وقت حملہ کر سکتے ہیں۔ انٹرا افغان مذاکرات کا سلسلہ ضرور شروع ہوا مگر وہ بے نتیجہ رہے۔ ایسے معاملات فریقین کی نیک نیتی کے باعث ہی کامیابی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ اعتماد سازی کے اقدامات اوّلین شرط ہوتے ہیں۔ افغان حکومت تو پورے عمل کو سبوتاژ کرنے پر تلی ہوئی تھی۔ افغان قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب طالبان کے ساتھ امریکہ کے مذاکرات اور بعدازاں امن معاہدے کے خلاف سخت بیانات دیتے رہے۔ پاکستان نے افغانستان امن عمل کے لیے بہترین کردار ادا کیا۔ حمد اللہ محب نے اس کے باعث سفارتی آداب اور اخلاقیات کو نظرانداز کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف بھی زبان درازی کی۔
آج افغانستان میں حالات اس قدر دگرگوں ہو چکے ہیں کہ چین سمیت متعدد ممالک نے اپنے شہریوںکو واپس بلا لیا ہے خود امریکہ کابل میں اپنا سفارتخانہ بند کر رہا ہے۔ کابل وہ شہر ہے جس میں کسی حد تک حکومتی رٹ برقرار ہے۔ دیگر شہروں میں حالات بگڑتے ہوئے خانہ جنگی کی طرف جا رہے ہیں۔ طالبان کی طرف سے ملک کے 85 فیصد علاقوں پر قبضے کا دعویٰ کیا گیا ہے جس کی تصدیق نہیں ہو سکی۔ اس حوالے سے پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار کا بیان بھی اہمیت کا حامل ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ 85 فیصد حصے پر قبضے کا دعویٰ مبالغہ آرائی پر مبنی نظر آتا ہے۔ طالبان 45 سے 50 فیصد علاقے پر قبضہ کر چکے ہیں۔ افغان انتظامیہ کی طرف سے کہا گیا ہے کہ اس نے فوجی کارروائی کرکے دو شہروں کا قبضہ طالبان سے واپس لے لیا ہے۔ دو شہروں پر قبضے اور پھر قبضہ چھڑانے کے دوران کتنا نقصان ہوا ہو گا؟ دونوں طرف مارے جانے والے لوگ کون تھے۔ اس کا احساس فریقین کو ہونا چاہئے۔
افغان انتظامیہ کو امریکہ کے انخلا کے بعد اپنے اقتدار کا بوریا بستر لپٹتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ اس کی پوری کوشش ہے کہ امریکہ کے اتنے فوجی موجود رہیں جو اس کی حکمرانی کا تحفظ کر سکیں۔ اُدھر بھارت کو بھی پاکستان میں مداخلت کے راستے مسدود ہوتے نظر آ رہے ہیں۔ میجر جنرل بابرافتخار نے اس حوالے سے کہا ہے کہ افغانستان میں بھارت نے پاکستان کے خلاف جو سرمایہ کاری کی تھی وہ اسے ڈوبتی نظر آ رہی ہے۔ وہ اب پریشان اور فرسٹریشن میں ہے۔ وہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے تھا۔ بھارت نے افغانستان میں تباہ کن حالات دیکھ کر وہاں سے اپنے جاسوس اور ایجنٹ واپس بلا لیے ہیں۔ اس نے نیک نیتی سے کام لیا ہوتا تو اسے دُم دبا کر نہ بھاگنا پڑتا۔ پاک فوج کے ترجمان کا یہ بھی کہنا ہے کہ امریکہ کو ذمہ دارانہ انخلا کرنا چاہیے تھا جس کا مطلب ہے اقتدار منتقل ہو چکا ہو ، امریکہ نے انخلا تھوڑا جلد کر لیا۔
امریکہ کی طرف سے انخلا میں قطعی طور پر عجلت نہیں کی گئی ٹائم فریم درست تھا مگر دانستہ یا نادانستہ سیاسی سیٹ اپ کی طرف توجہ نہیں دی گئی۔ امن معاہدہ 29 فروری 2020 ء کو ہوا ۔ امریکی چاہتے تو ڈیڑھ سال میں اقتدار پرامن طور پر منتقل ہو سکتا تھا۔ اگر نیتوں میں فتور ہو تو سیاسی سیٹ اپ کی تشکیل کے لیے دس سال بھی کم پڑ جاتے ہیں۔
اب بہت سا پانی پلوں کے نیچے سے گزر چکا ہے۔ گزرا وقت واپس نہیں آ سکتا۔ طالبان طاقت حاصل کرتے جا رہے ہیں۔ امریکہ نے ابھی مکمل انخلا نہیں کیا پھر بھی حالات بے قابو اور اقتدار آج کے حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل رہا ہے۔ وہ اقتدار بچا لیتے ہیں تو بھی بدترین خونریزی کا خطرہ ہے۔ طالبان آج بھی حکومت کے ساتھ مذاکرات پر تیار ہیں ، اشرف غنی حکومت کو ہوش کے ناخن لینے کی ضرورت ہے وسیع تر قومی مفاد میں فیصلے کریں۔ فوری طور پر سیز فائر کی ضرورت ہے جو اعتماد سازی کی بھی اوّلین شرط ہے جس کا اعلان کابل کی طرف سے ہو تو بہتر ہے۔