امریکی صدر جوبائیڈن کے اعلان کے مطابق امریکی افواج یکم مئی سے گیارہ ستمبر 2021 تک انخلاء کے عمل کو مکمل کرنے کیلئے افغانستان سے اپنی روانگی کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے تھی۔ اس عرصہ میں افغانستان کے مختلف صوبوں میں افغان نیشنل آرمی کی طرف سے اپنا اسلحہ و چھائونیاں افغان طالبان کے سامنے سرنڈر کرنے جیسے مناظر پر مبنی بے شمار ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں ۔ جسے دیکھ کر گزشتہ 5برسوں سے جاری تبصروں کی حقیقت دنیا کے سامنے آئی کہ امریکی و نیٹو افواج کے افغانستان سے نکلتے ہی امریکی تربیت یافتہ افغان فوج افغان طالبان کا مقابلہ کرنے کی بجائے ان کے سامنے ہتھیار پھینکنے کو ترجیح دے گی ۔ کیونکہ اگر جنگ لڑنے کا سوچا گیا تو افغان طالبان جو گزشتہ کئی دہائیوں سے حالت جنگ میں ہیں اور اپنے ہزاروں ساتھی افغانستان کی آزادی کیلئے امریکہ اوراس کے مغربی اتحادی ممالک کی جدید ترین خوفناک اسلحہ سے لیس افواج سے مقابلے کے دوران گنوا چکے ہیں‘ وہ نوآموز افغان فوجیو ں کو زیر کرنے میں دیر نہیں لگائیں گے۔جس کا ایک نمونہ 5جولائی 2021کو دنیا افغان صوبہ بدخشاں میںافغان نیشنل آرمی کی مزاحمت کے نتیجے میں دیکھ چکی ہے۔ جس میں دو روز تک جاری رہنے والی جنگ کے بعد افغان طالبان کی پیش قدمی کی تاب نہ لاتے ہوئے 2300افغان فوجی ، پولیس والے اور افغان وبھارتی خفیہ ادارے سے وابستہ افراد جان بچانے کیلئے تاجکستان میں پناہ حاصل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ افغان طالبان اس سے قبل شمالی افغانستان میں تاجکستان سے ملحقہ صوبوں بلخ، قندوز ، تاخار اور بدخشان تک 10 کے قریب اضلاع پر کنٹرول حاصل کر کے افغانستان و تاجکستان کے باہمی راستوں پر قابض ہوچکے تھے ۔ کابل کو خطرہ تھا کہ افغان طالبان بدخشاں ، خاص کر واخان پٹی تک رسائی کے راستوں تک ضرور پہنچنے کی کوشش کریں گے ۔ جس کے لیے ان علاقوں کے ہزاروں غیر فوجی جنگجوئوں کو بھاری مراعات و تنخواہ پر اسلحہ دے کر بدخشاں سے تاجکستان کے داخلی و خارجی راستوں کی حفاظت کیلئے تعینات کیا گیا لیکن افغان طالبان کی آمد کا سنتے ہی وہ سب فرار ہوگئے۔
تاہم اس صورت حال میں حیران کن صورت حال اس وقت سامنے آئی جب جنوبی ایشیاء میں امریکی افواج کے سب سے بڑے اڈے بگرام ایئر بیس وچھائونی میں نصف رات کو وہاں موجود امریکی فوجیوں نے شہر کی مانند پھیلے ہوئے بیس کی تمام روشنیاں گل کیں اور پورے بیس کو ویران چھوڑ کر وہاں سے غائب ہوگئے ۔ بیس کے داخلی دروازے بنداور وہاں 20برسوں بعد کوئی بھی ملحقہ گارڈ یا سیکورٹی کا دستہ نہ دیکھ کر بیس کے قریبی آبادیوں میں مقیم افغانیوں کو شک ہوا کہ بیس کے اندر کوئی نہیںہے تو انہوں نے بیس کی 12فٹ بلند دیوار کے ساتھ سیڑھی لگاکر اندر جھانکنے کی جسارت کی۔ وہاں کوئی حرکت نہ دیکھ کر دیوار پر لگی خار دار تاروں میں دوڑنے والے بجلی کے کرنٹ کا جائزہ لیاگیا تو ان میں کرنٹ نہیں تھا ۔ یہ اطلاع گائوں میں موجود مسلح افراد اور باقی نوجوانوں کو بھی پہنچی تو درجنوںافراد سیڑھیوں ، ٹریکٹر ، ٹرالیوں اورلوہاکاٹنے و توڑ پھوڑ میں استعمال ہونے والے دیگر ساز و سامان کے ساتھ بگرام بیس کی پشت سے بیس کر اندر کودگئے ۔ اندر سے قیمتی سامان چرانے کا سلسلہ 4گھنٹے تک جاری رہا ۔ وہاں سے 5کلومیٹر دور افغان نیشنل آرمی کے ٹھکانے پر بگرام بیس خالی ہونے اور وہاں جاری لوٹ مار کی اطلاع پہنچی تو افغان فوج کے کمانڈر نے اسے افواہ سمجھا۔ وہاں سے کابل میں فوج کے ہیڈکوارٹر کو اطلاع دی گئی تو انہوں نے بھی اس خبر پر یقین کرنے سے انکار کردیا اور بگرام بیس پر فون کر کے خبر کی تصدیق کی ضرورت کو بھی یہ کہہ کر رد کیا گیا کہ بگرام بیس میں امریکی اس طرح کی ٹیلی فون کال کا غلط مطلب لیں گے کہ شاید افغان طالبان کی طرح افغان نیشنل آرمی کے جرنیلوں کو بھی بگرام بیس سے امریکیوں کی رخصتی کی جلدی ہے۔ علاوہ ازیں ، افغان حکومت یا افغان فوج کے کمانڈر تصور بھی نہیں کرسکتے تھے کہ امریکی فوج یوں اطلاع دیے بغیر بیس پر اندھیرا کر کے وہاں سے خاموشی کے ساتھ رخصت ہوجائے گی ۔ یہاں تک کہ کابل میں امریکی سفارت خانہ بھی بگرام بیس کو یوں خالی کیے جانے پر پُر اسرار خاموشی اختیار کرے گا۔
صبح پوپھوٹنے پر افغان فوجی بگرام ایئر بیس کے دروازے پر پہنچے تو ہوکا عالم تھا۔ ہر طرف سناٹا دیکھ کر دروازے کو بندوق کے بٹوں سے پیٹا گیا ،کوئی جواب نہیں ملا تو دروازہ پھلانگ کر کچھ فوجی بیس کے اندر اتارے گئے ۔ دروازہ کھلوا کر جب افغان فوج اندر پہنچی تو وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ سینکڑوں ٹرک و گاڑیاں اپنی جگہ موجود تھیں، رن وے کے قریب بھی بہت سی جیپیں اور ویگنیں پارک تھیں۔ ان میں سے کچھ کے انجن چالو حالت میں تھے کہ جیسے چلانے والے عجلت میں انجن بند کرنا بھول گئے ہوں۔ فوج بیس میں پچھلی دیوار تک پہنچی تو بہت سے افغان لوٹ کا مال دیوار پر بیٹھے ہوئے ساتھیوں کے ذریعے دیوار کے پارمنتقل کرنے میں مصروف تھے ۔ انہوںنے افغان فوجیوں کو دیکھ کر بھاگنے کی کوشش نہیںکی بلکہ جلدی جلدی سامان باہر پہنچا نے میں لگے رہے۔ یہ پورا منظر افغان فوجیوں نے اپنے موبائل فون میں عکس بند بھی کیا ۔ کچھ لوٹ مار کرنے والے افغان نوجوانوں کو گرفتار بھی کیا گیا لیکن افغان فوج ابھی تک حقائق سامنے نہیں لاسکی کہ لوٹ مار کرنے والے کیا کچھ لے گئے۔ بگرام بیس پر مکمل کنٹرول کرنے کے بعد افغان فوج کے جنرل میر اسد کوہستانی مغربی میڈیا کو لے کر بگرام بیس پہنچے، انہیں وہاں موجود سامان دکھایا گیا جس میںلاکھوں کی تعداد میں پانی کی بوتلیں ، ڈبوں میں پیک پکا ہوا کھانہ ،ورزش کا سامان ، فرنیچر ، بستر، موسیقی اور گانے بجانے کا سامان ، کتابیں اور ان کے علاوہ بگرام بیس کے اندر بے شمار دوکانیں بھی ملیں جو ہر طرح کی ضرورت کے سامان سے بھری ہوئی تھیں ۔ اسلحہ و گولہ بارود ، بکتر بند گاڑیاں ، ٹینک و ٹرک بھی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ میڈیا والوں کے مطالبے کے باوجود انہیں بیس کے نتیجے میں زمین دوز بنکروں میں لے جانے سے انکار کردیا گیا ۔حالانکہ صحافی دیکھنا چاہتے تھے کہ امریکی فوجی وہاں کس طرح وقت گزارتے رہے۔ مغربی میڈیا کے مطابق ایک ماہ قبل تک بگرام بیس میں قائم جیل میں 5000کے قریب قیدی موجود تھے۔ لیکن افغان فوج کے کمانڈر جنرل اسد کوہستانی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ تمام قیدی کہاں گئے ؟ انہیں امریکیوں نے بیس خالی کرنے سے پہلے رہا کردیا یا اب وہ افغان فوج کی قید میں ہیں ۔کچھ بھی ہو امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا بھر کا میڈیا اس گتھی کو تاحال نہیں سلجھاپایا کہ امریکی فوج اس قدر عجلت میں پراسرار انداز میں بگرام بیس سے کیوں روانہ ہوئی جبکہ انہیں افغان طالبان کو طر ف سے کسی فوری حملے کا خطرہ بھی نہیں تھا۔