آزاد کشمیرکا چنائو اور ہمارے سیاستدان

آزاد کشمیر  کے چنائو کا پہلا مرحلہ جاری ہے اورہمارے سیاستدان ان الیکشن میںایک دوسرے کو   نشانہ بنانے میں مصروف ہیں۔محترمہ مریم صفدر اور بلاول زرداری کے بیانات سن سن کر ایسا محسوس ہوتاہے کہ ان سے زیادہ کوئی ایماندار ہے نہ حب الوطن … ان کی سیاست کے حدود اربعہ پر نظر ڈالیں تو ان کے سیاسی بیانات بڑھکوں سے زیادہ کچھ نہیں ۔مثلاً محترمہ مریم صفدر فرماتی ہیں کہ اس  حکمران نے عوام کو چینی ، آٹے کی خریداری کے لیے قطاروں میں کھڑا کر دیا ہے۔  محترمہ کو وہ وقت یاد ہوگا جب ملک پر ان کے والد کا اقتدار تھا اور نصف آبادی کے حامل صوبے پر انکے چچا کی حکمرانی تھی ۔ملک میں آٹے کی قلت پیدا ہوئی تو لوگوں  نے کہنا شروع کر دیا شیر آٹا کھا گیا ہے۔ پھر انسانی گریڈ  کا کہہ کر جانوروں کے گریڈ کی گندم منگوائی گئی جس کے آٹے سے چپاتی بنانا جوئے شیر لانے کے برابر تھا۔محترمہ نے فرمایا نواز شریف قیادت میں ہم مقبوضہ کشمیر جائیں گے ۔محترمہ اگر اپنے اس بیان پر خود شرمندہ نہیں ہوتیں تو عوام کو شرمندہ نہ کریں ۔قوم نے 30سال آپ کے والد اور چچا کو اقتدار کی کرسی پر بٹھائے رکھا لیکن کسی نے کبھی کشمیر کا نام تک نہیں لیاتھا ۔مقبوضہ کشمیر کی بات بعد میں کر لیتے ہیںصرف آپ خود  اورآپ کے بڑے قوم پر صرف اتنا احسان کریں کہ دہشت گردی کا تربیت یافتہ ہندو چائے فروش بھارتی حکمرن نریند ر مودی کی مسلم کش پالیسیوں اور مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم ستم اور مقبوضہ کشمیر کی مخصوص حیثیت ختم کرنے پر مذمت کریں تو پھر عوام کو یقین آجائے گا کہ آپ  بھارتی مسلمانوں اورکشمیری مسلمانوں کے خیر خواہ ہیں ۔ شاید آپ کو علم ہوگا کہ بھارتی صوبہ گجرات کا وزیر اعلیٰ ہونے کے ناطے نریندر مودی نے سینکڑوں مسلمانوں کا قتل عام کرایا تھا اور عوام میں اس کو قصائی کے نام سے پکارا گیا حتیٰ کہ امریکہ نے اپنے ہاں آنے پر اس پر پابند ی لگا دی تھی ۔جب بھارت میں اکثریتی ہندو آبادی نے ہندو پرستی کو فروغ کو دینے کے صلے میں اس دہشت گرد قصائی کو بھارت کی وزارت عظمیٰ سونپی تو حلف برداری کی تقریب میں نواز شریف کو شامل ہونے کی دعوت دی ۔دعوت کیا ملی لگتا تھا کہ آپ کے والد صاحب  پہلے ہی اس کے منتظر تھے  ۔وزارت خارجہ نے انہیں بریفنگ دی کہ بھارت جانا اس لیے مناسب نہیں کہ وہاں آپ کو کشمیری قیادت سے ملنے نہیں دیا جائے گا۔ مریم صفدر کو یہ بھی یاد ہوگا کہ جب جندال پاکستان آیا تو اس کا ویزا راولپنڈی تک  کا تھا لیکن اس ہندو کو کاروباری بات چیت کے لیے مری بلا لیا گیا۔ جب میڈیا میں چہ مگوئیاں شروع ہوئیں تو وضاحت آئی کہ جندال سے خاندانی تعلقات ہیں حالانکہ  صاف صاف بات کرنی چاہیے تھی کہ جندال سے ہمارے کاروباری تعلقات ہیں۔محترمہ آپ دن رات  وزیراعظم عمران خان کو کوستی ہیں کہ ان کو خارجہ پالیسی کا کچھ علم نہیں وہ تو صرف زندگی بھر کھیل کود میں مصروف رہاہے ۔  آپ تاریخ کا مطالعہ کریں تو ایسے بہت سے افراد کو اقتدار ملا ہے ،امریکی صدر ریگن جو کہ ایک مشہور ادا کار تھا امریکی عوام نے اسے صدارت سونپی تو وہ  8 سال تک امریکہ کا صدر رہا اور اس کا نام امریکہ کے مقبول ترین صدور میں ہوتا ہے ۔محترمہ اس خدشے کی بنا پر کہ گجرات کے مسلمانوں کا قاتل مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ظلم ڈھانے والا مودی آپ کے خاندان کی شادیوں میں شامل ہونے کے لیئے پاکستان آیا تھا آپ نے پہلے ہی یہ کہنا شروع کر دیا کہ نواز شریف دور میں بھارتی وزیر اعظم  یہاں پاکستان آتے تھے ۔محترمہ ایک ہندو قوم پرست واجپائی بطور وزیر اعظم سمجھوتہ ایکسپریس بس کے ذریعے لاہور آیا تھا تو کیا وہ کاغذات لایا تھا   ۔کلبھوشن کون تھا ؟بھارتی نیوی کا ایک اعلیٰ افسر جو پاکستان میں دہشت گردی کا نیٹ ورک چلاتا تھا ہماری معروف خفیہ ایجنسی نے بڑی محنت سے اسے گرفتار کیا لیکن آپ کے بڑے مودی کی دوستی میں آج تک اس کلبھوشن کا نام تک زبان پر نہیں لائے بلکہ عالمی عدالت میں بھارت کی طرف سے کلبھوشن کا کیس لے جانے میں مستعدی نہیں دکھائی حالانکہ ایک ایسے جاسوس کا جو بھارتی نیوی کا اعلی ٰ افسر ہونے اور پاکستان میں بے گناہ عوام کو بم دھماکوں میں شہید کرنے کا مجرم ہے ؟محترمہ آپ کو کرگل بحران یاد ہوگا ریٹائرڈ لیفٹینٹ جنرل توقیر ضیاء کا ایک بیان چند ہفتے قبل اخبارات میں شائع ہوا کہ پرویز مشرف نے کرگل کی برفانی چوٹیوں پر قبضہ کر کے بھارت کی گردن ڈبوچ لی تھی مگر بھارت نے اپنی بے بسی دیکھ کر امریکی صدر سے جان چھڑانے کی استدعا کی  امریکہ پہنچ کر  کس نے جیتی ہوئی بازی ٹیبل ٹاک میں ہار دی ۔پاکستانی قیادت امریکی صدر کو یہ نہ بتا سکی کہ بھارت ہمیشہ دھوکہ بازی سے پاکستانی علاقوں پر قبضہ کرتا ہے اور پھر بات چیت کا ڈھونگ رچا کر قبضہ مضبوط کرتا ہے پھر یہ ڈھونگ بھی ختم کر دیتا ہے ۔کشمیریوں کو حق رائے دہی کاوعدہ کرنا اور اس کے بعد آج دن تک عمل نہیں کیا گیا ۔بھارتی وزیر اعظم نہرو ، ایوب خان کے ساتھ سندھ طاس معاہدہ پر دستخط کرنے کے لیے پاکستان آیا اور مری میں اس معاہدے پر دونوں سربراہوں نے دستخط کیے لیکن آج دن تک بھارت اس معاہدے پر عمل درآمد کرنے سے عاری ہے ۔ سب کو یاد ہے کہ پرویز مشرف کو غیر ضروری طور پر سری لنکاکے دورے پر بھیجا گیا۔ منصوبے کے تحت واپسی پروہ ہوائی جہاز جس میںپرویز مشرف سمیت227افراد سوار تھے اسے پاکستان کے کسی بھی ہوائی اڈے پر اترنے کی ممانعت کر دی گئی اور پائلٹ کو ہدایت کی اگر فیو ل کم ہے تو قریبی بھارتی ہوائی اڈے پر لینڈ کرے ۔لیکن یہ منصوبہ بنانے والوں کی عقل میں یہ بات نہیں آئی کہ وہ ہوائی جہاز جس نے کراچی لینڈ کرنا تھا وہاں اپنے آرمی چیف کے استقبال کے لیے کور کمانڈر کراچی اور GOC  آئیں گے۔ اور وہ سائیکلوں پر نہیں آئیں گے بلکہ ان کے ساتھ مسلح سکواڈ ہوں گے اور کور کمانڈر کے ایک اشارے پر ائیر پورٹ پر تمام رکاوٹیں ختم ہو جائیں گی ۔

ای پیپر دی نیشن