اورافغانستان میں بھارت پھنس گیا !

مبصرین کے مطابق امریکہ نے افغانستان میں اپنی عالمی ذمہ داریوں سے پوری صرف نظر کیا اور انتہائی عجلت میں افغانستان سے اپنی فوج واپس بلائی ۔ بیجنگ میں چینی وزارت خارجہ کے ترجمان نے غالبا صحیح کہا ہے کہ امریکہ نے اپنے اس عمل سے افغان عوام اور خطے کے دیگر ممالک پر ملبہ ڈال دیا حالانکہ اس ساری صورتحال کیلئے اصل قصور وار امریکہ انتظامیہ ہے کیوں کہ اُسی پر تمام تر افغان مسئلے کی ذمہ داری عائد ہوتی ہیدوسری جانب پاک عسکری ترجمان کا یہ موقف بھی حقیقت پر مبنی ہے کہ افغانستان میں پاکستان مخالف سرمایہ کاری ڈوبنے پر بھارت شدید مایوسی کا شکار ہے اور ایسے میں اُس کی بوکھلاہٹ قابل فہم ہے ۔غیر جانبدار سفارتی مبصرین نے اس صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے رائے ظاہر کی ہے کہ درحقیقت بھارتی حکمران افغانستان میں اپنے ہی پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گئے ہیں ۔اسی تناظر میں 
 غیر جانبدار حلقوں کے مطابق بھارت اگرچہ اپنی نام نہاد جمہوریت کا پرچار کرتے نہیں تھکتا لیکن حقیقت یہ ہے کہ مودی حکومت چند بڑے بھارتی سرمایہ داروں مکیش امبانی اور آڈانی کی کٹھ پتلیوں کے طو ر پر کام کرتی ہے اور بھارت میں کرپشن سکہ رائج الوقت بن چکی ہے۔اسی تناظر میں یہ امر خصوصی توجہ کا حامل ہے کہ ٹرانسپنسی انٹرنیشنل کی 2020کی کرپشن انڈیکس رپورٹ کے مطابق بھارت کرپشن کے معاملے میں 86نمبر پر ہے۔
علاوہ ازیں فنانشنل کرائمز انفورسمنٹ نے بھی گزشتہ سال ایک رپورٹ جاری کی تھی جس کے مطابق بھارت کے44 بینک، جن میں پنجاب نیشنل بینک، کوٹک مہاندرا، ایچ ڈی ایف سی بینک، کنارہ بینک، انڈس لینڈ بینک اور بینک آف بروڈا شامل ہیں، جو منی لانڈرنگ میں ملوث پائے گئے تھے۔ مذکورہ بینکوں نے تین ہزار دو سو ایک غیر قانونی ٹرانزیکشنز کے ذریعے ایک ارب تریپن کروڑ ڈالرز کی منی لانڈرنگ کی تھی 
۔ غیر جانبدار مبصرین کے مطابق ان اعدادوشمار سے بھارت میں کرپشن کی صورتحال کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ بھارت اور فرانس کے درمیان ہونے والے’ رافیل جنگی طیاروں‘ کے سودے میں مبینہ بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے فرانس کی پبلک پراسیکیوشن سروسز کی فنانشل کرائم برانچ (پی این ایف) نے 2جولائی20201 کو کہا ہے کہ ایک فرانسیسی جج کو بد عنوانی کے الزامات کی تحقیقات کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔یاد رہے کہ بھارت اور فرانس کے درمیان 36 طیاروں کی خریداری کا معاہدہ 2016 میں ہوا تھا۔ اس ضمن میں 59 ہزار کروڑ بھارتی روپے کے معاہدے میں بھارت کی اپوزیشن کی سب سے بڑی جماعت کانگریس نے بدعنوانی کے الزامات عائد کیے تھے۔فرانس کی پبلک پراسیکیوشن سروسز کی فنانشل کرائم برانچ (پی این ایف) نے ابتدا میں تحقیقات سے انکار کیا تھا جس پر ایک تحقیقاتی ویب سائٹ‘میڈیا پارٹ‘ نے پی این ایف اور فرانس کی انسدادِ بدعنوانی ایجنسی پر اس سودے میں مبینہ بد عنوانی کو دبانے کا الزام عائد کیا تھا۔رپورٹس کے مطابق ’میڈیا پارٹ‘ نے رواں سال اپریل میں دعویٰ کیا تھا کہ فرانس کی طیارہ ساز کمپنی ’دسالٹ ایوی ایشن‘ نے اس سودے کے لیے بروکر کو لاکھوں یوروز کمیشن میں دیے تھے۔یہ کمیشن ان بھارتی اہلکاروں کو بطور رشوت دیا گیا جنہوں نے اس سودے میں مدد فراہم کی تھی۔ تاہم دسالٹ نے کہا تھا کہ گروپ کی آڈٹ رپورٹ میں اس قسم کی بدعنوانی کا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے۔اس رپورٹ کے بعد فرانس کی ایک نجی تنظیم ’شیرپا‘ نے، جو کہ مالی بدعنوانی کے معاملات دیکھتی ہے، بدعنوانی اور عہدے کے غلط استعمال سے متعلق ایک شکایت درج کرائی تھی۔اس سودے کے بعد بھارت کی حزبِ اختلاف کی جماعت کانگریس نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت پر الزام لگایا تھا کہ اس نے زیادہ قیمت پر طیاروں کا سودا کیا ہے۔ کانگریس کے مطابق سابقہ یونائیٹڈ پروگریسیو الائنس  (یو پی اے) حکومت نے جو معاہدہ کیا تھا اس کے مطابق ایک طیارہ 526 کروڑ بھارتی روپے میں خریدا گیا تھا جب کہ مودی حکومت نے ایک طیارہ 1670 کروڑ بھارتی روپے میں خریدا ہے۔کانگریس کے سابق صدر راہول گاندھی نے اس رپورٹ کے منظرِ عام پر آنے کے بعد مودی حکومت پرشدید تنقید کی ہے۔انہوں نے سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ ’رافیل اسکیم‘ کا استعمال کرتے ہوئے اشارتاً لکھا ’چور کی داڑھی‘۔فرانس میں تحقیقات کے لیے جج کے تقرر کی رپورٹ کے بعد کانگریس نے مطالبہ کیا ہے کہ اس سودے کی پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی سے تحقیقات کرائی جائے۔کانگریس نے کہا ہے کہ صرف پارلیمنٹ کی مشترکہ کمیٹی (جے پی سی) ہی اس معاملے کی گہرائی میں جا سکتی ہے اور پوچھ گچھ کے لیے بھارتی وزیرِ اعظم اور دوسروں کو طلب کر سکتی ہے۔کانگریس کے ترجمان رندیپ سرجے والا نے آن لائن نیوز کانفرنس میں کہا کہ صرف جے پی سی ہی اہل اتھارٹی ہے اور انڈین سپریم کورٹ بھی تمام دستاویزات طلب کرنے والی اہل اتھارٹی نہیں ہے۔ان کے مطابق بھارتی سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ وہ تمام دستاویزات طلب کرنے کی مجاز اتھارٹی نہیں ہے۔ لہٰذا مودی کو یہ بتانا ہوگا کہ اب جب کہ فرانس میں اس کی تحقیقات شروع ہو گئی ہیں تو ان کی حکومت کب جے پی سی سے جانچ کرائے گی۔بہر کیف اس تما م صورتحال میں شائد یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ مودی اپنے ہی بچھائے ہوئے جال میں پھنستے جا رہے ہیں اور دنیا بھر میں بھارت کا داغدار چہرہ تسلسل اور تواتر بے نقاب ہورہا ہے۔

ای پیپر دی نیشن