لاہور (تجزیہ، حافظ محمد عمران) غیر ذمہ دارانہ بیٹنگ، ناقص کپتانی، خراب فیلڈنگ، سمجھ بوجھ سے عاری کرکٹ کی وجہ سے دنیا میں پاکستان کا مذاق بن گیا ہے۔ انگلینڈ کی دوسرے درجے کی ٹیم کے خلاف مسلسل دو ناکامیوں نے ہماری صلاحیتوں کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے۔ باؤلرز اچھی جگہ باؤلنگ نہیں کر سکتے، بیٹسمین ذمہ داری سے پچ پر وقت نہیں گذار سکتے، فیلڈرز اچھی فیلڈنگ کرنے میں ناکام ہیں، کپتان باؤلرز کو استعمال کرنے کے فن سے ناواقف ہے ان حالات میں کامیابی کیسے ممکن ہے۔ پاکستان کرکٹ بورڈ کی ساری توجہ تین سال سے کھلاڑیوں کی ویڈیوز بنانے پر ہے، کھلاڑی بس میں سوار ہو رہے ہیں، بس سے نکل رہے ہیں، ہوٹل میں کھیل رہے ہیں، ہوائی جہاز کا سفر کیسے گذر رہا ہے، کون گانا گا رہا ہے، کسی کی سالگرہ منائی جا رہی ہے، سادہ لوح اور معصوم شائقین کی حمایت حاصل کرنے کیلئے "فینز" "فینز" کا راگ الاپا جا رہا ہے۔ کرکٹ پر کام کرنے کے بجائے سب کچھ ہو رہا ہے اگر کچھ نہیں ہو رہا تو کھیل کے بنیادی ڈھانچے پر، کھلاڑیوں کے مسائل حل کرنے اور دنیا کا مقابلہ کرنے کیلئے کچھ نہیں ہو رہا۔ دوسرے ون ڈے میں بھی پاکستان کے باؤلرز ابتدا میں اچھی باؤلنگ کرنے کے بعد اس کا فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے، انگلینڈ نے کم بیک کرتے ہوئے تیزی سے رنز بنائے پھر ایک سو ساٹھ پر سات وکٹیں حاصل کرنے کے بعد کپتان بابر اعظم نے میزبان ٹیم کو رنز بنانے کا موقع فراہم کیا۔ باؤلرز اچھی جگہ باؤلنگ کرنے میں ناکام رہے۔ بیٹنگ میں ایک مرتبہ پھر غلطیوں کو دہرایا گیا۔ بابر اعظم اور محمد رضوان کے گرد گھومنے والی بیٹنگ لائن بے بسی کی تصویر بنی نظر آئی۔ سابق کپتان سلمان بٹ کہتے ہیں کہ ٹی ٹونٹی کرکٹ کھیل کھیل کر آج ہماری کرکٹ کا گرتا ہوا معیار سب کے سامنے ہے۔ کھلاڑیوں کیساتھ ساتھ سلیکٹرز اور کوچنگ سٹاف سمیت سب اس ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ سلیکشن کا معیار ایک سو چالیس کلو میٹر فی گھنٹہ پر چند گیندیں اور ایک دو چھکے ہیں۔