’پیغمبر اسلام‘ 692ضخیم صفحات پر مشتمل ایسی کتاب ہے جس میں سیرت النبی کے حوالے سے 94اہم باب شامل کیے گئے ہیں۔ کتاب ضیاءالقرآن پرنٹنگ پریس نے شائع کی ہے۔ اس کی ترتیب و تالیف کی ذمہ داری محمد عبدالقیوم کے سپرد تھی جنھوں نے اپنی اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے نبھایا۔ اس خوبصورت کتاب کی اہم با ت یہ ہے کہ اس میں نبی پاک کی زندگی کے کسی بھی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا۔ مکمل کتاب پڑھنے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ محمد عبدالقیوم نے اس پر کتنی محنت اور عرق ریزی کی ہے۔ کتاب کا پہلا باب نبی پاک کے والدِ محترم کے انتقال پر مشتمل ہے جبکہ دوسرے باب میں والدہ محترمہ کے انتقال کا ذکر کیا گیا ہے۔ نبوت کا آغاز کب ہوتا ہے، نبی پاک کو کھانے کی پہلی اور دوسری دعوت کس نے دی۔ یہ سب باتیں اس کتاب میں شامل ہیں۔
حرفِ سپاس میں محمد عبدالقیوم لکھتے ہیں، ’اس کتاب میں شامل مضامین کی ترتیب و تالیف کے لیے میں نے جن شہرہ آفاق مشاہیر کی نگارشات اور اندازِ تحریر و تحقیق سے استفادہ کیا، ان تمام قابل احترام ہستیوں کے نام اس کتاب میں شامل کر دیے ہیں۔ میری دعا ہے فضیلت کی حامل ان بلند پایہ ہستیوں کو بارگاہِ الٰہی سے بلند مقام عطا ہو۔ ’پیغمبر اسلام‘ کی ترتیب و تالیف کے اس سعادت آفریں سفر میں ادارے اور بہت سے افراد کے پرخلوص تعاون پر بھی ان کا بے حد شکر گزار ہوں۔‘ ملک کے مایہ ناز صحافی مجیب الرحمن شامی نے بھی کتاب اور محمد عبدالقیوم پر اپنے تاثرات کا اظہار کچھ اس طرح کیا ہے، ’محمد عبدالقیوم ایک بڑے بزنس مین ہیں۔ ضابطے اور قاعدے کے پابند۔ قرینے، سلیقے اور ادب و آداب کا خیال رکھنے والے، وقتاً فوقتاًکوچہ¿ سیاست میں بھی تانک جھانک جاری رکھتے تھے لیکن اب وہ عملی طور پر سیاست میں اپنی دلچسپی کم کر چکے ہیں۔ انھیں کیا خبر تھی کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب ان کا شمار نہ صرف مصنفین اور محققین میں ہو گا بلکہ وہ ان کی صفِ اول میں بیٹھے نظر آئیں گے کیونکہ سیرت النبی کو تحقیق و جستجو کا موضوع بنانے والا آدمی پچھلی صف کا تو ہو ہی نہیں سکتا۔ ان کا ہدیہ¿ عقیدت انھیں ایک اور ہی لذت سے آشنا کر چکا ہے۔‘
کتاب کے صفحہ 179سے’اہلِ مکہ کی طرف سے اہلِ مدینہ کے نام دھمکی آمیز خطوط‘ سے ایک اقتباس پیش خدمت ہے: ’منافقوں کے سردار عبداللہ بن ابی پر ان دنوں بڑی اداسی، افسردگی اور مایوسی کی کیفیت طاری تھی کیونکہ رسول اللہ کی مدینہ تشریف آوری سے پہلے اہلِ مدینہ اسے متفقہ طور پر اپنا بادشاہ بنانے کا اعلان کر چکے تھے اور کچھ ہی دنوں بعد ایک شاندار تقریب منعقد کر کے اس کے سر پر تاج رکھا جانا تھا لیکن اب شہر کی آئینی فرماں روائی ، انتظامی معاملات اور سیاسی حالات یکسر تبدیل ہو چکے تھے۔ لوگ روز بہ روز پروانوں کی طرح رسول اللہ کے سایہ¿ عاطفت میں اکٹھے ہو رہے تھے۔ قریش مکہ تک اس کی خبریں پہنچ رہی تھیں کہ مسلمان مدینہ میں بڑی آزادی اور حفاظت سے رہ رہے ہیں۔ اور یہ کہ رسالت مآب کا مدینہ میں ایک حکمران کی حیثیت سے شان دار استقبال ہوا ہے اور یہ خبر بھی کہ مدینہ میں رہنے والے ہر شخص نے ایک بے تاب پروانے کی طرح آپ کی خدمت اقدس میں یہ درخواست پیش کی کہ آپ اپنی میزبانی کا شرف اور اعزاز ہمیں عطا فرمائیں۔‘
اس طرح کی دل کو دکھانے والی خبریں قریش مکہ کے لیے سخت پریشانی اور اضطراب کا باعث بن رہی تھیں۔ چنانچہ انھوں نے بڑی گھبراہٹ کے عالم میں مدینہ میں مقیم اپنے قابلِ اعتماد، آزمودہ کار اور پکے ساتھی عبداللہ بن ابی کی جانب ایک دھمکی آمیز خط بھیجا۔ جس میں لکھا کہ ’اے اہلِ یثرب! ہم قریش مکہ اس بات کی سخت مذمت کرتے ہیں کہ آپ لوگوں نے مکہ سے آئے ہوئے ہمارے خاندان کے ایک صاحب جناب محمد بن عبداللہ اور ان کے ساتھیوں کو ہماری مرضی کے خلاف نہ صرف اپنی حفاظت اور پناہ میں رکھا ہوا ہے بلکہ بڑے جذبے اور شوق کے ساتھ ان لوگوں کی خدمت گزاری بھی کر رہے ہو۔ تمھارے اس ناقابل قبول عمل کو اہلِ مکہ یہ سمجھتے ہیں کہ اہلِ یثرب ہمارے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔اے یثرب کے لوگو! اب ہمارا آخری فیصلہ سن لو۔ ہم اللہ کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یا تو تم لوگ خود ان سے جنگ کرو اور مکہ سے آئے ہوئے ان مہاجروں کو ہلاک کر دو جنھیں تم لوگوں نے نا صرف اپنا مہمان بنا کر رکھا ہوا ہے بلکہ بڑے شوق اور جذبے سے ان کی خدمت گزاری بھی کر رہے ہو۔‘
کتاب کا اسلوب تحریر نہایت سادا اور آسان ہے۔ محمد عبدالقیوم نے پوری کوشش کی ہے کہ پڑھنے والے کو کہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ وہ تسلسل کے ساتھ اسے پڑھتا اور سمجھتا چلا جائے۔ اچھی طباعت کا خوبصورت شاہکار ہے۔ اس کتاب کا عظیم پیغام نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھرمیں موجود مسلمانوں تک پہنچنا چاہیے۔