قارئین بلا شبہ پچھلے آٹھ دس روز سے آئی ایم ایف معاہدے کے متعلق حکومتی زعماءاور انکے حمایتوں کی رطب اللساں سن سن کر آپکے کان پک چکے ہونگے لیکن راقم کو حیرانگی آج اس وقت ہوئی جب ایک تو بنا بلائے اور اوپر سے لہجے کی تلخی کو چھپائے بغیر وارد ہوتے ہی اپنے ہمزاد نے اس خاکسار پر یہ سوال داغ دیا کہ بڑے کالم نگار بنے پھرتے ہو اگر تمہیں یہ کہا جائے کہ “یہ آئی ایم ایف کے ساتھ موجودہ حکومت نے نو ماہ کا جو قلیل مدتی معاہدہ کیا ہے ” اسکا صرف ایک سطر میں احاطہ کرو تو اسکے متعلق تم کیا کہو گے۔ سیانے کہتے ہیں “گونگے دیاں رمز اں گونگے دی ماں ای سمجھ دی اے” اسکے اندر کے سلگتے آتش فشاں کی تپش کو محسوس کرتے یہ خاکسار سمجھ گیا کہ یہ آج کس فریکونسی پر بولے گا۔ آخر ہم نے بھی جناب سعید آسی جیسے استادوں کی مار کھائی ہے، لمحے کے توقف بغیر عرض کی ”شہد کھان نوں باندری تے ڈانگاں کھاون نوں رِچھ“
بس قارئین پھر کیا ہونا تھا ہمزاد کہنے لگا “آفرین تم پر اور تمہاری عوام پر” سب سمجھتے بھی ہو اور بولتے بھی نہیں، سب کچھ جانتے بوجھتے آنکھوں پر پٹی باندھے کولہو کے بیل کی طرح جتے ایک ہی دائرے میں گھوم رہے ہو۔ کو لہو کے بیل پر تو سوال اس لئے نہیں اٹھتا کہ قدرت کی طرف سے اسے شعور کی نعمت ہی عطا نہیں ہوئی جسکی بنا پر وہ کچھ سوچ اور سمجھ سکے، اسے مالک نے جس کام پر لگا دیا وہ اسی پر لگ گیا لیکن حیرت ہوتی ہے تمہاری جنس پر جسے اللہ تعالی نے اشرف المخلوقات کا درجہ دیا جنھے اللہ نے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کے ساتھ عقل اور شعور جیسی نعمت سے نوازا اور تمہیں اختیار دیا کہ تم اپنے بہتر سماجی روابط کی بدولت اپنے آپکو استحصالی قوتوں سے بچا سکو لیکن شرم آتی ہے یہ کہتے کہ جسطرح کولہو کے بیل کو صرف چارہ چاہیئے اسی طرح ان ساہوکاروں کے تشکیل کردہ نظام میں تم لوگوں کی غرض صرف دو وقت کی روٹی تک محدود کر دی گئی ہے جو وہ بھی اب تمہیں آسانی سے میسر نہیں۔
شعور کی بات چل نکلی قارئین ذرا اس بات کے متعلق سوچیئے ہم میں سے کتنے لوگ ایسے ہیں جنھے اس آئی ایم ایف ( بین الاقوامی مانٹری فنڈ) کے بارے میں پتا ہے کہ یہ کیا بلا ہے۔
تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ 1930ءکے ساتھ ہی پوری دنیا میں معاشی مسائل نے بڑی شدت کے ساتھ سر اٹھایا اور پھر دوسری جنگ عظیم نے یورپی ممالک کی معیشت کا تو مکمل بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا، خصوصاً جنگ کے اخراجات کی وجہ سے ہر ملک کی ادائیگیوں کا توازن بہت بری طرح بگڑ گیا۔
اِن دنوں پوری دنیا میں پونڈ کو بین الاقوامی مالیاتی معاملات میں مرکزیت حاصل تھی لیکن برطانیہ نے جنگ عظیم دوئم کے درمیان جنگی اخراجات سے نبٹنے کیلئے اپنے سونے کے ذخائر سے کہیں گنا زیادہ نوٹ چھاپے جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ برطانیہ کے زرِ مبادلہ برطانوی پونڈ پر دوسرے ممالک کا اعتماد کم ہو گیا۔
ان حالات کے مطابق اب بین الاقومی سطح پر ایک ایسے ادارہ کی ضرورت تھی جو فی الفور دنیا کے لیے ایک نیا اور پراعتماد مالیاتی نظام تشکیل دینے کے ساتھ ان ممالک کی مدد کرے جو ادائیگی کے توازن کے مسائل کا شکار تھے۔ اسکے ساتھ ساتھ اس امر کی بھی اشد ضرورت تھی کہ ان ممالک کے زرمبادلہ کی شرح کا درست تعین ہو اور اس کیلئے ایک نظام وضع کرنے کی بڑی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔
چنانچہ ان تمام نکات کو مدنظر رکھتے جولائی، 1944 میں امریکا، نیو ہیمپشائر، بریٹن ووڈز کے مقام پر” بریٹن ووڈز معاہدہ” کے نام سے دنیا کے تقریباً 29 ممالک کے درمیان ہونے ایک ایسا معاہدہ طے پایا جس کا مقصد دنیا کو ایک نیا مالیاتی اور زری نظام دینا اور جنگ زدہ ممالک کی تعمیر و ترقی تھا۔ جسکے بعد دسمبر 1945ءمیں اس بریٹن ووڈز معاہدہ کے تحت عالمی بینک اور آئی ایم ایف کا قیام عمل میں آیا۔ اپ سب کو پتا ہوگا کہ آئی ایم ایف کا مرکزی دفتر امریکہ کے دار الحکومت واشنگٹن میں ہے اور آج اس وقت شمالی کوریا، کیوبا اور کچھ دوسرے چھوٹے ممالک چھوڑ کر دنیا کے 185 ممالک اس کے ارکان میں شامل ہیں
قارئین یہ تو تھیں کتابی باتیں جو راقم نے آپکے گوشہ گزار کیں اب آتے ہیں زمینی حقائق کی طرف کہ وہ کیا عملی تصویر دکھاتے ہیں۔ طے کردہ اصولوں کے برعکس بین الاقوامی مالیاتی فنڈ پر دراصل بڑی بڑی طاقتوں کا مکمل راج ہے جس کی اصل بنیاد اس کے فیصلوں کے لیے ووٹ ڈالنے کی غیر منصفانہ تقسیم ہے جسکی ایک معمولی سی جھلک آپکو ان اعداد و شمار سے ہی ہو جائے گی کہ اس ادارے کے ستر فیصد ووٹ صرف بیس صنعتی ممالک بشمول امریکا برطانیہ فرانس جاپان اور چین کے پاس ہیں۔ بس ان اعداد سے اندازہ کر لیں کہ اس ادارے کی ترجیحات طے کرتے یہ صنعتی ممالک اپنے مفادات کا کتنا خیال کرتے ہونگے اور باقی 165 ممالک کی تقدیر کے متعلق کیا فیصلے کرتے ہونگے۔ اب آتے ہیں اس مقام کی طرف جہاں ہم آج کھڑے ہیں۔ اسکے لئے ایک دفعہ پھر ہمیں تاریخ کی طرف لوٹنا پڑے گا۔
1947ء میں اپنے قیام کے بعد گیارہ سالوں تک پاکستان نے آئی ایم ایف کی بارہا پیشکش کے باوجود اس سے کوئی قرضہ نہیں لیا تھا حالانکہ تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جتنی مالی دشواری اور خستہ حالی پاکستان کو ورثہ ملی اسکی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ یہ 1958ءکی بات ہے جب ایک امر جنرل ایوب خان کے دور میں آئی ایم ایف نے پہلا قرضہ پاکستان کو دیاہے۔
1988ءسے پہلے پاکستان اور آئی ایم ایف کے مابین ہونے والے تمام معاہدے قلیل مدتی بنیادوں پر ہوتے تھے جن میں عمومی طور پر قرض معاشی اصلاحات سے مشروط نہیں ہوتے تھے۔ تاہم 1988ءکے بعد بینظیر کے پہلے دور حکومت میں ’اسٹرکچلرل ایڈجسٹمنٹ پروگرامز` شروع ہو گئے۔
اس سے آگے کی بات انشاءاللہ اگلے کالم میں۔
٭....٭....٭