آج کل سیاست میں کوئی رنگ نہیں ۔ دہائیوں کے حریف پیپلز پارٹی اور نون لیگ والے ایسے شیر و شکر ہوئے ہیں کہ جدائیاں ڈالنے کی کوششیں کرنے والے بھی لگتا ہے کہ تھک ہار گئے ۔ عمران خان کے خوفناک دور حکومت سے سب کی آنکھیں ایسے کھلی ہیں کہ سیاسی جماعتوں نے یکجا ہو کر اس سے جان چھڑوانے کے لیے ایکا کر رکھا ہے ۔ ادھر اسٹیبلشمنٹ کو بھی راج دلارے کے وہ ہاتھ لگے ہیں کہ نانی یاد آ گئی۔ اپنے ہی بنائے ہوئے لیڈر نے ان کو دن میں تارے دکھا دیے اور پھر اسی نے ان ہی پر حملہ کر دیا ۔ کہتے ہیں بوتل سے جن کو آزاد کرنا تو آسان ہے لیکن اسی جن کو بوتل میں واپس ڈالنے کے لیے فوج کو بہت قربانی دینی پڑی ۔ سب کو ہی اپنی غلطیوں کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو 9 مئی کے نقصانات اٹھا کر اور خان صاحب کو اور ان کی جماعت کو 9 مئی کے نقصانات کر کے ۔ اب معافی تلافی کی تو کہیں گنجائش نہیں ۔واپسی کے تمام راستے بند ہیں ۔
یوں تو جب سے میاں نواز شریف کو پاناما میں نکالا گیا تھا اور 2018ء کے الیکشن کو جس طرح سے انجینئر کیا گیا تو کوئی ذی ہوش سوچ نہیں سکتا تھا کہ ساڑھے تین سال بعد ہی عقل کل ساری پارٹی کا تیا پانچا کروا کر ارسطوں کی فوج ظفر موج کو جیل میں پہنچا دیں گے اور خود کالی بالٹی سر پر رکھ کر ایک عدالت سے دوسری عدالت کے چکر لگا رہے ہوں گے ۔ پی ٹی آئی جو کہ مقبول ترین جماعت کا تاثر لیے ہوئے تھی اس کو اپنے ناقص عقل کے ہاتھوں بین کروانے تک پہنچا دیں گے ۔ زرداری صاحب نے صحیح کہا تھا ہم انھیں نہیں گرائیں گے یہ خود گریں گے۔ بھئی گرے تو ایسے کہ نون لیگ والوں کی ڈوبتی نیا کو بھی سہارا دے گئے۔ اب میاں صاحب چوتھی بار وزیر اعظم بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ کچھ سال پہلے ان کو ٹی وی پر دکھانا منع تھا وہ بار بار ایک ہی سوال کرتے تھے کہ آخر مجھے کیوں نکالا اب وہ بار بار اشارے کنایوں سے پوچھ رہے ہیں کہ واپس کب آئوں ۔ واہ ری سیاست تیرے گھن چکر !
ادھر 9 مئی کے واقعات سے متاثرین میں پی ٹی آئی کے لیڈر ان آئی پی پی میں شامل ہو گئے ہیں۔ استحکام پارٹی کے لیڈران تو ٹھیک ٹھیک ہیں ۔ان میں سیاسی سوجھ بوجھ ہے لیکن جو ٹولہ ان کو تحفے میں دیا گیا ہے وہ دیکھ کر دل کچھ بجھا سا گیا ہے۔ ما شا ء اللہ تر جمان دیکھ کر سبحان اللہ کہنے کو دل کرتا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ گالی گلوچ کے ماہرین سے بہتر کچھ ہوش مند لوگوں کو سامنے لایا جاتا جو پارٹی کا بہتر چہرہ بن سکتے ۔ پر سجنوں کی مرضی ماننی پڑتی ہے ۔ اب دیگ میں مختلف جماعتوں کا تڑکا تو لگ چکا ہے آنے والے مہینے میں نگران وزیر آغم کی پرچی بھی نکلنے والی ہے آج کل لوگ کہہ کہہ کر اپنے نام اخباروں میں چھپا رہے ہیں پر ہو گا وہی جو میرا رب اور 9 مئی والے چاہیں گے ۔
باقی شہباز شریف اور بلاول بھٹو تو ایک دوسرے کے گن گاتے نظر آتے ہیں۔ پیپلز پارٹی کی نون لیگ میں شہباز شریف گروپ کے ساتھ گاڑھی چھن رہی ہے لیکن اگر آنے والے سیٹ اپ میں مریم نواز کو کوئی کلیدی کردار ملتا ہے تو ان کا مزاج پیپلز پارٹی کے مزاج سے نہ مل پائے گا اور یہ غیر فطری اتحاد تڑک کر کے ٹوٹ جائے گا ۔ سوشل میڈیا پر گاہے بگاہے نون لیگ کا مریم بی بی کہ میڈیا والے پیپلز پارٹی پر پیار کے تیر برساتے رہتے ہیں لیکن ابھی ان کا تکا لگ نہیں رہا ۔ ادھر پیپلز پارٹی میٹھے میٹھے ہو کر سندھ کا بلدیاتی الیکشن جیت گئے ہیں اور کراچی اور حیدر آباد میں برسوں کے بعد اپنا میر لے آئے ہیں۔ بلوچستان میں بھی اپنے چیئر مین بنوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ سائوتھ پنجاب میں بھی کچھ لوگوں کو اپنے ساتھ ملانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ۔
بات ساری پنجاب پر اٹکی ہے اقتدار کا ہما اسی کے سر بیٹھے گا جہاں وسطی پنجاب کے ایم این اے کے الیکٹیبلز جائیں گے۔ زیادہ تر تو پیاروں کی وجہ سے مختلف پارٹیوں میں چلے گئے ۔ لیکن کئی لوگ ابھی سے ایک کی محبت میں پڑنا نہیں چاہتے ۔ بے وفا محبوب کی طرح آپشنز کھلی رکھ کر بیٹھے ہیں ۔ عہد و پیمان کر کے الیکشن میں جانا چاہتے ہیں ۔ مجھے صرف یہ ڈر ہے کہ اگلے الیکشن کے بعد بھی ہم نازک دور میں نہ چلے جائیں اس لیے ایسی کھچڑی نہ نکائی جائے جو ملک اور عوام پر بھاری ہو ۔ اس ملک کو آگے بڑھانا ہے اب ہمیں پیچھے مڑ کر نہیں دیکھنا جو پیچھے ہی مڑ مڑ کر دیکھتے رہتے ہیں وہ ترقی کا سفر کبھی نہیں کر سکتے ۔ہمیں گزشتہ غلطیوں کو نہیں دہرانا۔ ہمیں مل جل کر اس ملک کو سر بلند کرنا ہے ۔
٭…٭…٭