‘‘عالمی عدالت  اور سخت قوانین کی منظوری’’

   نائلہ خاور

سویڈن کے دارالحکومت  سٹاک ہوم کی مسجد کے باہر   خاص مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالاضحی  کے دن مقامی پولیس کی سخت سیکوریٹی میں قرآنِ پاک کو نذرِ آتش کرنے کا دلخراش واقعہ پیش آیا جس سے دنیا بھر کے مسلمان سراپا  احتجاج   بن گئے۔
ایران- ترکی? - مراکش اور دیگر ممالک میں اس واقعے کے خلاف شدید مظاہرے کیے گئے۔ عراق کے دار الحکومت بغداد میں ہزاروں افراد نے سویڈن کے سفارت خانے کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا۔ مراکش اور اْردن نے سویڈن سے اپنے اپنے سفیر واپس بلا لیے۔دیگر ممالک میں بھی سویڈن کے سفیران کی طلبی ہوئی اور انہیں مراسلات سپر د  کئیگئے 

ایران سعودی عرب مصر - ترکی اورپاکستان نے بھی واقعے کی شدید مذمت کی۔ وزیر اعظم پاکستان نے جمعے کو یوم تقدیس قرار دیتے ہوئے پوری قوم سے ملک گیر احتجاج کی اپیل کی جس کے بعد ملک کے طول و عرض میں احتجاج کیا گیا۔ پا رلیمنٹ میں مذمتی قرارداد پیش کی گئی جسے متفقہ طور پر قبول کر لیا گیا۔ اس قرارداد کے متن میں ایسی مذموم حرکتوں کے خاتمے کے لئے کمیٹی کے قیام پر زور دیا گیا۔

ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے کہا کہ آزادی رائے کے اظہار کے پردے میں اسلام مخالف اقدامات قطعی قابل قبول نہیں۔ اور یہ کہ ہم انہیں قرآن پاک اور  عام کتاب کے درمیان فرق بتا کر رہیں گے۔
پوٹن نے کہا کہ روس میں ایسا ہوتا تو سخت سزا دیتا۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہونے پر یک جہتی کے اظہار کے طور پر اس نے مقامی مسجد کا دورہ کیا اور دوران ِدور? مسلسل قرآن پاک کو سینے سے لگائے رکھا۔ 
یہاں تک کہ پوپ فرانسس اور سویڈن کی حکومت نے بھی واقعے کی مذمت کی اور وضاحت کی کہ پولیس نے 39 سالہ سلوان مومیکا جو کئی برس قبل عراق سے فرار ہو کر سویڈن آگیا تھا اْسے آزادی اظہار را? کے قوانین کے تخت احتجاج کی اجازت دی۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب دنیا کی اکثریتی را? یہی ہے کہ دوسروں کے مذہبی  شعائر کی توہین قابلِ مذمت حرکت ہے تو پھر اس طرح کے واقعات رونما ہی کیوں ہوتے ہیں۔  ایسے قوانین کیوں نہیں بنا? جاتے جو ایسے عناصر کا قلع قمع کر سکیں یا انہیں سخت سزائیں دی جائیں تاکہ وہ دوبارہ ایسی مکروہ حرکات  کا ارتکاب ہی نہ کر سکیں۔
ویسے بھی دنیا کے کسی بھی فرد کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ 
دوسروں کے مذاہب ان کے مقامات مقدسہ، مقدس ہستیوں اور مقدس کتابوں کی بے حرمتی کرے، یہ کیسا آزادی اظہار رائے ہے جو نقص امن کا مؤجب  بن رہا ہے جو دنیا کے امن کو تباہ کر رہاہے ؟اور وہ کون سا مذہب ہے جو اپنے پیرو کاروں کو بے وجہ بے سبب دوسروں کی دل آزاری کرنے کی تعلیم دیتا ہے۔؟؟
جو پْر تشدد رویوں کو فروغ دینے اور رواداری و اخوت سے الگ رہ کر چلنے کی ترغیب دیتا ہے بے شک ایسا کوئی مذہب دنیا میں وجود نہیں رکھتاتو پھر ایسی کاروائیاں کرنے والے افراد کسی مذہب اور سوچ کے پروردہ ہیں۔ یقیناً ایسے افراد کا کوئی مذہب کوئی دین و دھرم نہیں ہوتا وہ لادین ہوتے ہیں۔
یہ ایک خاص ذہنیت اور خاص طبقہ ہے۔ جو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس طرح کے اقدامات کرتا ہے۔ جن کا بظاہر کوئی مقصد نہیں لیکن دراصل یہ لوگ امن کے دشمن ہیں۔ وہ بین المذاہب رواداری اور دوستی کے مخالف ہیں۔ یہ اسلامو فوبیا کے منفی پراپیگنڈے کو پھیلا کر مذموم مقاصد کی نشونماکر رہے ہیں۔

ایسے مواقع پر صرف مذمت اور احتجاج کافی نہیں۔ عالمی عدالت اور بین الاقوامی قوانین کا در کھٹکھٹانے کی اشد ضرورت ہے۔وقت آگیا ہے کہ قراردادوں اور تحریکوں سیباہر نکل کر ٹھوس اقدامات کیے جائیں سفیروں کو بلا کر احتجاج ریکارڈ کروانے اور سفارت خانوں کے باہر مظاہروں نے نہ پہلے کچھ دیا ہے اور نہ اب دے گا۔ تمام مسلم امہ کو اس حساس امر پر مل بیٹھ کر مکمل یک جہتی کے ساتھ ایسے ٹھوس اقدامات  کرنے چاہئیں جن سے آیندہ اس طرح کے مذموم واقعات کی روک تھام ہو سکے۔

اس ضمن میں وہ تمام ممالک، شخصیات اور مذاہب کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا جو ان کاروائیوں کو قابل مذمت گردانتے ہیں۔ ضرورت ہے کہ اب عالمی عدالت میں کیس داخل کر دیا جائے۔ تمام مسلم ممالک ایک ساتھ سویڈن کا بائیکاٹ  کریں۔ ان کے سفیر واپس لوٹا دیے جائیں سفارتی تعلقات ختم کر دیے جائیں مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جائے اور اقوام متحدہ اور یورپین  یونین  کو بھی ایسا کرنے والے ممالک پر پابندیاں لگانے پر قائل  کیا جائے۔اقوام متحدہ، یورپی یورنین، او آئی سی اور عالمی عدالت کو اپنی اپنی جگہ پر اپنا اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ دنیا کو تباہی کی طرف بڑھنے سے روکا جاسکے۔
اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس نے سدا احترامِ انسانیت، مذہبی آزادی، مذہبی ہم آہنگی کے  فروغ رواداری، اخوت اور بھائی چارے کا درس دیا۔ تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں نے کبھی کسی دور میں کسی دوسرے مذہب کے مقدسات کی تو ہین نہیں کی کیونکہ مسلمان تمام الہامی کتابوں اور الہامی پیغمبروں پر ایمان رکھتے ہیں ہمارا ایمان ہمیں تمام مذاہب کے مقدسات کے احترام کی تلقین کرتا ہے لیکن
اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم اگر دوسرے مذاہب کی دل آزاری کا سبب نہیں بنتے تو ہمیں کمزور جان کر ہمارے خلاف سازشیں کی جائیں اور ہمارے مذہبی شعائر کا مذاق اڑایا جائے۔ وقت آگیا ہے کہ مغرب کے ان بے سروپا نفرت انگیز اور مکروہ اقدامات کی روک تھام کی جائے۔

وقت آ گیا ہے کہ سمندر کی جھاگ بنیرہنے کی بجائے اپنے مذہب، قرآن پاک ، پیغمبروں اور دیگر شعائر کے ناموس کے تحفظ کے لیے سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ایسے تو ہین آمیز واقعات کے ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دلوائی جائے اور انہیں عبرت کا نشان بنا دیا جائے تاکہ آنے والے ادوار میں کوئی ایسے مکروہ  اور دل شکن واقعات کا مرتکب نہ ہو سکے۔ 
امن پسند اور بقا? باہمی پر یقین رکھنے والی اقوام کو علم ہونا چاہیے کہ ایسے مذہبی تعصبات دنیا میں امن کے لیے خطرہ ہیں اس لیے جتنا جلد ان پر قابو پا لیا جا? اتنا اچھا ہے اور ایسا اب سخت قوانین کی منظوری کے بغیر ممکن نہیں۔

ای پیپر دی نیشن