ریت کا ٹیلہ کھیلتے بچوں پر گرنے سے آٹھ نونہال جاں بحق

’’ماں ہمیں جلدی چائے دو کھیلنے جانا ہے‘‘
جاں بحق ہونے والا عظمت سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا، وزیر اعظم پاکستان کا اظہار افسوس متاثر خاندانوں کے لیے امداد کا اعلانبچوں کی مائیں اب تک مکمل ہوش و حواس میں نہیں ، بہن اور بھائیوں کو شایان کی باتیں یاد آتی ہیں تو رونے لگتے ہیں


عیشہ پیرزادہ
eishapirzada1@hotmail.com

گذشتہ دنوں یہ علاقہ شانگلہ کی تحصیل الپوری سے ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر مارتونگ میںبچے میدان میں کھیل رہے تھے کہ ان پر ریت کا تودہ آگراجس کی وجہ سے آٹھ بچے جان کی بازی ہار گئے۔ اس میدان میں گاؤں کے بچے روزانہ عصر کے بعد کھیلنے جاتے تھے۔
 مقامی لوگوں کے مطابق شام کے وقت بچے اس میدان میں کھیلنے آتے ہیں۔’کوئی کرکٹ کھیلتا ہے، تو کوئی یہاں ریت کے ٹیلے پر چڑھ کر کھیلتا ہے۔ اس پسماندہ علاقے میں بچوں کے لیے یہ ایک قسم کا تفریحی مقام ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’یہاں واقع ریت کے ٹیلے سے لوگ ریت بھی نکالتے ہیں۔ چند روز سے یہاں ہونے والی بارش ریت کے ٹیلے کی تہہ میں دھنس رہی تھی۔ گذشتہ جمعرات کی شام قریباً چھ بجکر 15 منٹ پر اچانک ریت کا یہ ٹیلہ پھسل کر بچوں پر گر گیا۔ یہ ٹیلہ لگ بھگ 25 فٹ اونچا تھا۔‘واقعے کے بعد مقامی لوگوں نے مساجد میں اعلانات کیے کہ سب لوگ میدان میں پہنچیں۔
پہلے بیلچوں اور چھوٹے اوزاروں سے ریت ہٹانے کی کوشش کی گئی لیکن اس سے کام نہیں بنا تو اس علاقے کے یونین کونسل کے چیئرمین  نے بھاری مشینری منگوانے کی کوششیں شروع کیں۔چیئر مین یونین کونسل کے مطابق وہ خود قریبی پہاڑ سے شاول لے کر آئے۔ ’یہاں پہنچنے میں دو گھنٹے لگ گئے تھے تاہم رات ساڑھے دس بجے تک آٹھ بچوں کی میتیں ہم نے نکال لی تھیں۔‘ واقعے میں ایک بچہ زندہ بچ گیا ہے جسے مقامی لوگوں نے فوری طور پر نکال لیا تھا۔ اس بچے کا جسم تو ریت میں دھنسا ہوا تھا لیکن سر باہر تھا۔ ’اس لیے اسے سانس لینے میں مشکل نہیں تھی باقی بچے مکمل دھنس گئے تھے۔‘اس علاقے میں ان دنوں شدید بارشیں ہو رہی ہیں۔ ’ واقعہ جب پیش آیاتو اس کے بعد بھی شدید بارش شروع ہو گئی تھی۔‘ عام طور پر یہ علاقہ خشک اور گرم رہتا ہے اور یہاں بارشیں کم ہی ہوتی ہیں۔اس حادثہ میں دو خاندانوں کے بچے ہلاک ہوئے ہیں۔
جن میں ایک ہی خاندان کے چھ بچے بھی شامل ہیں۔ اس خاندان کے ایک بزرگ عمر کریم نے بتایا کہ وہ ایک مشترکہ خاندان کا حصہ ہیں۔ ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایسا حادثہ ہو سکتا ہے۔’مائیں بچوں کو بار بار تلقین کرتی ہیں کہ باہر جاتے ہو تو اپنا خیال رکھو، بچے یہی کہہ کر چلے جاتے ہیں کہ ماں یہ سامنے ہی تو کھیل رہے ہیں۔‘
عمر کریم نے میڈیا کو بتایا کہ ان کو فون پر علم ہوا کہ ان کے گھر کے بچے بھی حادثے کا شکار ہوئے ہیں۔ ’ان بچوں کی عمریں نو سال سے 12 سال کے درمیان تھیں۔‘
’ہم موقع پر پہنچے تو وہاں صورتحال بہت خراب تھی۔ ریت کے ٹیلے سے بچوں کو نکالنا انتہائی مشکل تھا۔ 
 ایک بچے کا سر اور بازو بھاری مشینری کی زد میں آ گیا جس سے اس کا چہرہ مسخ ہوگیا۔‘
’اس واقعے کے بعد ہمارے گھر میں ایک کہرام تھا، خواتین بے ہوش ہو گئی تھیں۔ انھیں ہوش میں لانے کے لیے ڈاکٹروں کو بلایا گیا۔  ان بچوں کی مائیں اب بھی اپنے مکمل ہوش و حواس میں نہیں ہیں۔
عمر کریم نے بتایا کہ ان کے بھائی شاہد کی سات بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔’اس سے پہلے ایک بیٹا بیمار ہوگیا تھا۔ اسے لاہور لے گئے تھے لیکن اس کی بیماری کے دوران وفات ہو گئی۔‘’اب اس کی سات بیٹیاں اور ایک ہی بیٹا رہ گیا تھا اور یہ بیٹا انھیں بہت پیارا تھا۔ بہنیں اور والدین عظمت اللہ کو گھر سے باہر بھی نہیں جانے دیتے تھے اور وہ یہی کہتا کہ ماں یہ گھر کے سامنے ہی تو کھیلنے جاتا ہوں میں کون سا دور چلا جاتا ہوں۔‘
اس حادثے میں محسن شاہ کے دو پوتے جان کی بازی ہار گئے ہیں۔ ان میں نو سالہ شایان اور 13 سالہ رضا شامل ہیں۔محسن شاہ نے بتایا کہ جمعرات کو بچے ماں سے کہنے لگے کہ ’جلدی ہمیں چائے دو پھر ہم کھیلنے جاتے ہیں۔‘ماں شایان سے بار بار یہی کہتی رہی کہ ’خیال کیا کرو، تم چھوٹے ہو۔ وہاں بچے کھیل رہے ہوتے ہیں کہیں تم گیند نہ لگ جائے۔‘’شایان نے ماں سے کہا کہ نہیں ماں، ہم تو ان سے دور ایک سائیڈ پر کھیلتے ہیں۔ اچھا ماں، جلدی سے چائے دو ناں دیر ہو رہی ہے۔ سب بچے وہاں پہنچ گئے ہوں گے۔‘’ماں نے اسے چائے دی اور وہ روانہ ہوگیا۔‘ان کا کہنا تھا کہ ایسا واقعہ ان کی زندگی میں کبھی کسی کے ساتھ پیش نہیں آیا۔ ’پورا گاؤں سوگوار ہے۔ بہن اور بھائیوں کو شایان کی باتیں یاد آتی ہیں تو رونے لگ جاتے ہیں۔ وہ چھوٹا تھا اور سب کا لاڈلا تھاعظمت اللہ کو تو ماں گھر سے باہر ہی نکلنے نہیں دیتی تھی۔ وہ سب کا لاڈلا تھا۔ سب اس سے بہت پیار کرتے تھے اور کیوں نہ کرتے وہ سات بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا اور سب سے چھوٹا تھا۔حادثہ پیش آنے والے علاقے میں میں طبی سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہیں۔  علاقہ مکین کے مطابق ہسپتال میں آکسیجن ہوتی ہے اور ناہی دوسری سہولیات۔ اگر کوئی واقعہ ہو جائے تو شانگلہ یا سوات اور بونیر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔‘ 
دردناک حادثے پر وزیر اعظم پاکستان میاں محمد شہباز شریف نے بھی افوس کا اظہار کیا اور جاں بحق ہونے والے ہر بچے کے اہل خانہ کے لیے 10 لاکھ روپے کی مالی امداد کا اعلان کیا ہے۔

ای پیپر دی نیشن