پاکستان میں لگ بھگ تریسٹھ سال کے بعد ایک زرعی انقلاب کی باتیں سننے کو مل رہی ہیں۔ زراعت میں انقلاب برپا ہونے کو ہے اعلان ہو چکا ہے، بیانات سامنے آ چکے ہیں۔ اب عملی طور پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ اس گرین انیشی ایٹو کو افواج پاکستان کی سرپرستی، سربراہی، رہنمائی اور نگرانی حاصل ہے۔ گوکہ سیاسی قیادت نے بھی اپنی ذمہ داری نبھانی ہے لیکن یہ بات یاد رکھیں کہ فوج اس سلسلے میں سب سے اہم سٹیک ہولڈر ہے کیونکہ انیس سو ساٹھ میں فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت تھی۔ اس دور میں ہونے والی ترقی کی مثالیں آج بھی دی جاتی ہیں۔ کوئی کچھ بھی کہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایوب خان کے دور میں ملک میں معاشی اور صنعتی طور پر بےپناہ ترقی ہوئی۔ اگر تعمیر کا وہ سفر جاری رہتا تو یقینا آج حالات بہت مختلف ہوتے۔ اس دوران ہمیں جمہوریت کا شوق چرایا تھا اور اس جمہوری حکومت کے خواب کو تعبیر دیتے دیتے ملک دو ٹکڑے ہوا، سقوط ڈھاکہ ہوا، بنگلہ دیش بن گیا۔ پھر افغان جنگ اور پھر جمہوری حکومتوں کے آنے جانے کا کھیل اور پھر نائن الیون کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور اس کے بعد مسلسل پندرہ سال تک جمہوری حکومتوں نے جو کچھ کیا وہ سب کے سامنے ہے۔ کچھ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ اس لیے کچھ زیادہ یاد کروانے کی ضرورت نہیں ہے۔ بنیادی ڈھانچے پر مسلم لیگ نون نے ضرور کام کیا ہے۔ سی پیک بھی اسی دوران شروع ہوا لیکن صوبوں نے کچھ زیادہ کام نہیں کیا۔ بالخصوص خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی مسلسل دو حکومتوں کو دیکھیں تو تکلیف دہ صورت حال ہے۔ لگ بھگ دس سال کے دوران خیبر پختونخوا میں پی ٹی آئی حکومت بنیادی ڈھانچے اور صوبے کی ترقی کے لیے کوئی بڑا کام نہ کر سکی۔ جمہوری حکومتوں کی غلط معاشی پالیسیوں کا ہی نتیجہ ہے کہ ملک کی معیشت کمزور ہوئی، درآمدات میں بےپناہ اضافہ ہوا، برآمدات کم ہوتی چلی گئیں۔ پاکستان کا امپورٹ بل بڑھتا چلا گیا، قرضے بڑھتے چلے گئے، ملک چند ارب ڈالرز کے لیے بیرونی دنیا کی طرف دیکھتا رہا، جمہوری حکومتوں نے صنعتوں کی ترقی اور زرعی شعبے میں اصلاحات اور قومی پالیسی کو نظر انداز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ملک چلانے کے لیے قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔ ان حالات میں گرین انیشی ایٹو سے اچھی امیدیں ضرور ہیں۔ یاد رکھیں گذشتہ چند ماہ کے دوران افواج پاکستان کے تعاون سے یہ دوسرا بڑا منصوبہ ہے۔ اس سے پہلے سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل کا قیام بھی عمل میں آ چکا ہے۔ ان دونوں منصوبوں پر اگر ہم حقیقی سپرٹ کے ساتھ کام کرنے میں کامیاب ہوئے تو حقیقی آزادی اور خود مختاری کے خواب کو تعبیر مل سکتی ہے۔ اگر یہ منصوبے سیاست کی نظر نہ ہوئے، سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے تعطل نہ آیا کوئی وجہ نہیں کہ ہم معاشی طور پر مضبوط ہو جائیں گے۔ ہماری درآمدات کم اور برآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے۔ سی پیک آگے بڑھے اس کے ساتھ ساتھ ملک میں زرعی انقلاب آئے۔ ہم کرنا چاہیں تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ میں نے زراعت اور زرعی شعبے میں خدمات انجام دینے والوں کے بارے کافی لکھا ہے۔ اس میدان میں جہانگیر خان ترین کی خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہیں۔ جہانگیر ترین کے علاوہ بھی بہت لوگ نظر آئیں گے جو ملک کی حقیقی معنوں میں خدمت کر سکتے ہیں۔ ایسے افراد کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ شکر ہے کسی کو سبز انقلاب کا خیال تو آیا کاش سیاسی جماعتیں بہت پہلے اس حوالے سے فیصلے کرتیں۔ بہرحال دیر سے آنا نہ آنے سے بہتر ہے۔ اب صرف ملک و قوم کی ترقی کو ہدف بنا کر آگے بڑھیں۔ ٹانگیں کھینچنا بند کریں۔وزیراعظم میاں شہباز شریف کہتے ہیں کہ "زرعی شعبہ ملکی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی جیسی اہمیت رکھتا ہے۔ کسان محنت کرتے ہیں لیکن وسائل کی کمی کا سامنا ہے۔ سپہ سالار کا یہ ویڑن ہے ترقی کا راز مسلسل عمل اور محنت میں ہے۔ حکومت کسانوں کو ہر ممکن وسائل فراہم کرے گی۔ کسان کو قیمت پوری ملتی ہے تو وہ پوری محنت کرے گا۔ گرین اینی شیٹو پروگرام سے زرعی معیشت ایک سے دو سال میں بحال ہوجائے گی اور چار سے پانچ سال میں تیس سے چالیس ارب ڈالرز سرمایہ کاری آنے کی توقع ہے۔ خلیجی ریاستیں چالیس ارب ڈالرز کی اجناس مختلف ممالک سے منگواتی ہیں، گرین اینی شیٹو پروگرام سے چالیس لاکھ لوگوں کو روزگار ملے گا۔"اس پروگرام سے بہت امیدیں ہیں سب سے اہم چیز ہماری مستقل مزاجی اور منصوبے کو قومی خدمت کے جذبے کے تحت جاری رکھنا اور اس کے حقیقی ثمرات عام آدمی تک پہنچانے کے لیے ایمانداری کے ساتھ ذاتی اختلافات اور سیاسی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کام کرنا ہے۔ ملک میں مختلف حلقوں کو فوج کے کردار پر تحفظات رہتے ہیں اور اس حوالے سے خدشات کا اظہار بھی ہوتا ہے۔ فوج کو تنقید کا سامنا بھی ہوتا ہے، فوجی حکمرانوں کو آڑے ہاتھوں بھی لیا جاتا ہے لیکن فوجی حکمرانوں کے دور حکومت کی خامیوں کو گنواتے ہوئے اس دوران ہونے والے اچھے کاموں کو سب نظر انداز کرتے ہیں۔ انیس سو ساٹھ کے بعد اگر زرعی شعبے کو وہ اہمیت نہیں دی گئی تو اس کا ذمہ دار کوئی ایک نہیں سب ہیں لیکن یہ سوال کون پوچھے گا کہ نوے کی دہائی اور دو ہزار دو سے دو جولائی دو ہزار تیئیس تک رہنے والی جمہوری حکومتوں کا کردار کیا تھا۔ فوج نے ہر مشکل وقت میں ملک کی خدمت میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج بھی فوجی جوان ملک کے دفاع کہ خاطر قربانیاں دے رہے ہیں، آج بھی سیاسی قیادت بیانات و الزامات میں الجھی ہے لیکن فوج نے ناصرف خود احتسابی میں پہل کی ہے بلکہ ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے قابل عمل اور انقلابی منصوبوں میں سیاسی قیادت کے شانہ بشانہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ جس طرح فیٹف گرے لسٹ سے نکلنے کے لیے افواج پاکستان نے کردار ادا کیا ہے اسی طرح سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل اور گرین اینی شیٹو منصوبے پر بھی اسی سپرٹ سے آگے بڑھا جائے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کہتے ہیں کہ "مسلمانوں کے لیے ناامیدی کفر ہے، دنیا کی کوئی طاقت پاکستان کو ترقی سے نہیں روک سکتی۔ ہم سب یہاں پاکستان کو ایک بار پھر سرسبز کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں، پاکستان کو اللّٰہ نے بہت سی نعمتوں سے نوازا ہے۔ ہم باصلاحیت قوم ہیں، ضرورت صرف اس امر کی ہے کہ ہم مل کر اس کی ترقی میں حصہ ڈالیں، پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے بحیثیت ادارہ مکمل جانفشانی اور قلب و روح کے ساتھ ہر ممکن تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔"
سیاسی قیادت کو بھی ماضی کے جھگڑوں سے نکل کر اپنا وقت اور توانائیاں ملک کو مسائل سے نکالنے اور ترقی کے سفر کو تیز تر کرنے پر خرچ ہونی چاہییں۔ پاکستان کو ترقی سے کوئی نہیں روک اگر کوئی یہ کام کر سکتا ہے تو وہ اپنے پاکستانی ہیں۔ ایسے پاکستانیوں کی نشاندہی اور انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لیے بےرحمانہ فیصلے کریں۔ اس ملک اور دکھوں کے مارے کروڑوں لوگوں پر رحم کریں۔ مسائل حل کرنے کے لیے متحد ہوں اور نفرتوں کو ختم کرتے ہوئے امن، محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کریں۔
آخر میں ناصر کاظمی کا کلام
نئے کپڑے بدل کر جاو¿ں کہاں اور بال بناو¿ں کس کے لیے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاو¿ں کس کے لیے
جس دھوپ کی دل میں ٹھنڈک تھی وہ دھوپ اسی کے ساتھ گئی
ان جلتی بلتی گلیوں میں اب خاک اڑاو¿ں کس کے لیے
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاو¿ں کس کے لیے
اب شہر میں اس کا بدل ہی نہیں کوئی ویسا جان غزل ہی نہیں
ایوان غزل میں لفظوں کے گلدان سجاو¿ں کس کےلئے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصراب شمع جلاو¿ں کس کے لیے