مرد ٹوٹ جاتا ہے

جب میں نانا دادا بناتو اولاد کی اولاد کی ننھی سے تکلیف بھی مجھے مارنے لگی ، بیٹا شوہر باپ سے زیادہ تو دادا نانا بننا آزمائش ہے ، یہ مرد آہن اس سٹیج تک نحیف اور کمزور دل ہو جاتا ہے مگر ذمہ داریاں جوں کی توں جوان رہتی ہیں “اور پھر بھرائی ہوئی آواز میں بولا میں تین بہنوں کے بعد پیدا ہوا تو خاندان بھر میں خوشی منائی گئی۔ محلے بھر میں لڈو بانٹے گئے۔ لاڈ پیار تو جو ملا سو ملا مگر جب ہوش سنبھالا پہلا جملہ ماں کا جو کانوں سے ٹکرایا وہ یہ تھا “ میرا شہزادہ بڑا ہو کر افسر بنے گا “۔ بڑا ہوا اور سکول جانے لگا تو ماں کا دوسرا جملہ جو کانوں سے ٹکرایا وہ یہ تھا “بہنوں کا خیال رکھے گا ہمارے بڑھاپے کاسہارا بنے گا “۔ میٹرک تک پہنچا تو ماں نے کہنا شروع کر دیا “میرے شہزادے بڑا افسر بننا ہے۔باپ کا بازو بننا ہے۔ تیری بہنوں کی ذمہ داری ہمارے بوڑھے کاندھوں پر ہےشادیاں بھی کرنی ہیں “۔اسی بوجھ اور احساس ذمہ داری میں آگے بڑھتا رہا۔ جب سے ہوش سنبھالا میری زندگی کا کوئی دن ایسا نہ تھا جب مجھے ماں باپ اوربہنوں کی ذمہ داری کا احساس نہ دلایا گیا۔والدین کی امیدوں کے خوف نے انجینئر بنا دیا۔ اس دوران ایک لڑکی بھی پسند آگئی لیکن جوانی کا وہ فطری تقاضہ بھی والدین اور بہنوں کے احساس بوجھ کی نذر ہو گیا۔ اصل محبت زمانہ طالب علمی میں ہوتی ہے اور وہی زمانہ ہوتا ہے جب شادی کی آرزو اور خواہش سر چڑھ کر بولتی ہے مگر بہنوں کی شادیوں سے پہلے میری شادی کی سوچ جرم عظیم سمجھی جاتی تھی۔ پھر بھی ہمت کر کے ماں سے اپنی پسند کا ذکر کر دیا تو ماں نے اس خواہش کو بے شرمی سے تعبیر کیا۔ ماں نے ڈانٹ دیا “ تین جوان بہنیں گھر بیٹھی ہیں اورتجھے اپنی شادی کی پڑی ہے ؟ماں کے اس جملے نےجوانی کے ابلتے جذبات کا خون کر دیا۔ محبت اور شادی کی خواہش کا گلہ گھونٹ دیا اور والدین کی توقعات کی سولی پر لٹک گیا۔ والد کا بازو بننا تھا۔بہنوں کی ڈولی اٹھانی تھی۔ ماں کے تمام ارمان پورے کرنے تھے۔ متوسط طبقہ سے تعلق تھا۔ تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے لئے شام کو جاب کرنا بھی مجبوری تھی۔ ایک بہن نے بی اے کیا مناسب رشتہ ملا تو اس کی شادی کر دی۔دوسری نے بی اے کیا اس کی شادی کردی۔ تیسری نے ایم اے کیا اس کی شادی کردی۔اس دوران میں انجینئر بن چکا تھا۔ملازمت بھی مل چکی تھی۔ والد کو شوگر اور ماں کو جوڑوں کی تکلیف نے آگھیرا۔ میری عمر تیس سال سے تجاوز کر چکی تھی۔ہر بہن کی شادی کے موقع پر سوچتا کہ عورت ذات کے مزے ہیں۔ بی اے کیااور بیاہ۔نہ پیروں پر کھڑا ہونا شرط نہ والدین بہن بھائیوں کی مالی و سماجی ذمہ داری کا بوجھ۔اور ایک میں ہوں جس کی پیدائش پر پورے محلے میں لڈو بانٹے گئےکہ بہنوں اور والدین کا سہارا پیدا ہوا ہے۔ پیدا ہوتے ہی سب کی توقعات کا یہ سہارا اپنی ذات میں کتنا تنہا اور پریشان ہے نہ ماں نے محسوس کیا نہ بہنوں نے۔جوانی کی خواہشات کا گلہ گھونٹ گھونٹ کر وقت سے پہلے بوڑھا ہونے لگا اور جب مالی طور پر کچھ سنبھلنے لگا تو ماں نے ایک اور جملہ کہا “اب تجھے شادی کر لینی چاہئے۔ مرنے سے پہلے تیری اولاد بھی دیکھ لیں “۔اس سٹیج پر شادی بھی ایک ذمہ داری کے سوا کچھ محسوس نہ ہوئی کہ والدین کو گھر میں رونق چاہئے اور وہ اپنی مرضی کی بہو لے آئیں۔ ماں اور بہنوں کے بعد میری زندگی میں ایک اور عورت کی اینٹری ہوجاتی ہے جو گھر آتے ہی کہتی ہے “ میں نے آپ کے لئے اپنے والدین بہن بھائی گھر شہر سب کچھ چھوڑا ہے “۔ بیوی کے اس جملے نے بتا دیا کہ اس مرد نما مخلوق پر ایک اورذمہ داری کادور شروع ہو چکا ہے۔ یہی نہیں بیوی ، بہنوں اور ماں باپ کی توقعات میں توازن کےپل صراط کو عبور کرنے کی کوشش نے عمر سےپہلے بوڑھا کر دیا۔اس دوران دو لڑکیوں اور دو لڑکوں یعنی چار بچوں کا باپ بن چکا تھا۔ اس روز احساس ہوا کہ اے مرد آہن ذمہ داری اور توقعات کا سفر زیرو سے شروع ہونے جا رہا ہے۔ بھول جا تو نے والدین کے لئے کیا کچھ کیا۔ بہنوں اور ان کے بال بچوں کے ناز نخرے کیسے اٹھائے رکھے ہیں۔ بیوی کا مرید بننے میں کیا کیا جھیلنا پڑا۔ اب تو باپ بن چکا ہے۔ بہنوں کی ذمہ داری کا نصف سے زائد تیرے باپ نے ادا کیا تھا تو سہارا اور سپورٹ تھا۔ آج تو خود باپ بن چکا ہے۔اب سو فیصد کا ذمہ دار ہے۔ بچوں کو اعلی تعلیم دلائی۔ان کی ہر ضرورت ہر خواہش پوری کرنے کے لئے ڈبل شفٹ بھی لگاتا رہا۔لڑکیاں آنکھ جھپکتے جوان ہو گیئں ، ان کے رشتے تلاش کئے۔ شادیاں کر دیں۔ ایک اپنے گھر میں گزارہ کر رہی ہے جبکہ دوسری کو طلاق ہو گئ۔اس روز طلاق یافتہ بیٹی کی چار سالہ بیٹی یعنی میری نواسی میری گود میں بیٹھی کھیل رہی تھی اور میں سوچ رہا تھا کہ اللہ تعالی نے آدم علیہ سلام کی صورت میں عورت سے بھی پہلے مرد کو کیوں پیدا کیا پھر فرشتوں کو اس مرد کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں دیا ؟ پہلے عورت کیوں پیدا نہ فرمائی ؟فرشتوں کو عورت کو سجدہ کرنے کا حکم کیوں نہ دیا ؟خالق نے یہ اعزاز شاید اس منصب کی بدولت دیا جو مرد کو عورت کی ذمہ داری کے تحت سونپ دیا گیا تھا؟والدین بہن بھائی بیوی اولاد کی ذمہ داریوں کے بوجھ تلے کب جوانی سے بڑھاپے میں قدم رکھا وقت نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی۔ آج میں اپنے باپ کی اس سٹیج پر کھڑا ہوں جہاں مجھے بھی بلڈ پریشر اور شوگر کے امراض لاحق ہیں۔معاشی گاڑی گھسیٹتے گھسیٹتے بدن نحیف ہو چکا ہے مگر اب نواسی کو ایک تندرست اور مضبوط نا نا کی ضرورت ہے ،مالی مشقت اور ذمہ داریوں کی گاڑی کے پہیہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی سستانے کا موقع میسر نہ آسکا۔نواسی گود میں بیٹھی کھیل رہی تھی اور میں پینسٹھ برس کی عمر میں پرانی ذمہ داریوں کے دور میں کھڑا تھا۔لگا سفر جیسے رک گیا فرشتوں کا مجھے سجدہ کرنے کا سبب سمجھ آنے لگا۔ہو۔اس حدیث پاک کی بھی کچھ کچھ سمجھ آنے لگی کہ اگر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو سجدہ روا ہوتاتو عورت کو حکم ہوتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔اور یہ سوچ کر میری آنکھیں بھیگ گئیں کہ میری ہر عورت خواہ میری ماں ہے بہن بیوی بیٹی یا نواسی پوتی ہے سب نے مجھ سے توقعات وابستہ کر رکھی ہیں اور مجھے سب سے پہلے بطور ایک مرد سہارا اور شیلٹر کے دیکھا جاتا ہے۔میرا ایک بت بنا دیا گیا ہے جو نہ روتا ہے نہ ٹوٹتا ہے نہ کمزور ہوتاہے نہ ذمہ داریوں سے بھاگ سکتا ہے۔ لیکن عورت کا کوئی رشتہ یہ محسوس کرنے کی زحمت نہیں کرتا کہ مرد نہیں روتا مگر باپ روتا ہے۔ بیٹا کمزور ہو تاہے۔ شوہر گھبراتا ہے۔ بھائی پریشان ہوتا ہے۔ نانا دادا ٹوٹ سکتا ہے۔ اور کبھی تو ایسے حالات و واقعات امتحان و آزمائش میں پھنس جاتا ہے جہاں وہ خود کو بالکل تنہا کھڑا پاتا ہے۔ تمام رشتوں کا یہ واحد سہارا جس کی پیدائش پر لڈو بانٹے جاتے ہیں آج بڑھاپے کی دہلیز پر کھڑا اپنے زخم بانٹنے کی جسارت بھی نہیں رکھتا کہ خالق نے اسے مرد بنا دیا ہے ، کفیل اورمحافظ جیسا منصب سونپ دیا ہے۔ فرشتوں کا مجھے سجدہ کرنے کا راز تو اب منکشف ہورہا ہے۔ مرد کا سب سے بڑا کتھارسس عورت ہے۔ ایک مکمل عورت۔لیکن اپنی شکایات گلے شکوﺅں الزامات میں غرق دور حاضر کی عورت مرد پر رحم کھانے کوتیار نہیں کہ مظلوم کا لیبل فقط اس نے اپنے لئے اعزاز سمجھ رکھا ہے۔لڈو تو عورت کی پیدائش پر بانٹنے چاہئیں تھے۔

طیبہ ضیاء … مکتوب امریکہ

ای پیپر دی نیشن

آج کی شخصیت۔۔۔۔ جبار مرزا 

جب آپ کبھی کسی کے لیے بہت کچھ کہنا چاہ رہے ہوتے ہیں لفظ کہیں بھاگ جاتے ہیں ہمیں کوئی ایسے الفظ ملتے ہی نہیں جو اس شخصیت پر کہہ ...